تاثیر جعفری کے بقول
کچی مسجد ہے جہاں پڑھتے ہیں سب لوگ نماز
اور اِک نہر سے کرتے ہیں وضو گاؤں میں
قارئین، “مسجد” کہنے کو تو ایک ظرف، مقام (جگہ ) ہے جہاں اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوا جاتا ہے جو دیکھنے کے اعتبار سے عام عمارتوں کی طرح اسی دنیا کی بنی ہوئی چیزوں کے ملانے سے ہی بنتی ہے، اس میں آنے جانے والے، صفائی کرنے، اذانیں دینے، نمازیں پڑھانے والے عام انسان ہی ہوتے ہیں۔ اس میں اسی طرح کی ضروریات زندگی بھی ہوتی ہیں، جس طرح کسی گھر کی ضروریات پانی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے، تو یہ ایسی مقدس جگہ ہے جہاں سر کو درِ سرکار پر رکھ کر گڑگڑایا جاتا ہے۔ دنیا کے جھمیلوں میں الجھے ہوئے پریشان حال لوگوں کے دل کا درماں جس مطب اور دواخانہ میں ہے، وہ مسجد ہی ہے ، جو بے کسوں کی داد رسی کی جگہ ہے۔ وہ جسے اپنوں نے چھوڑا ہو غیروں نے دھتکارا ہو، جس کی سنوائی کسی در پر نہ ہو رہی ہو، اس کی سنوائی جس درپر ہوتی ہے، وہ یہی مقدس مقام “مسجد” ہے۔ (1)
سب سے پہلی مسجد کعبہ ہے۔ کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہا سلام) نے زمین پر عبادت کی تھی، اسی جگہ پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی، وہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ کئی روایات کے مطابق وہیں حضرت (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پہلے پہل نمازیں ادا کیں اگر چہ وہاں کعبہ میں اس وقت بت موجود تھے۔ دوسری مسجد، “مسجد قباء” تھی جس کی بنیاد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب وہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے۔ تیسری مسجد، “مسجد نبوی” تھی جس کی بنیاد بھی حضرت (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا۔ مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا، آج مسجد الحرام اور مسجد نبوی مسلمانوں کی مقدس ترین جگہیں ہیں۔
مساجد مسلمانوں کا مرکز ہیں جو صرف مذہبی امور تک محدود نہیں رہی ہیں بلکہ مسلمانوں کا معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مرکز بھی مسجدیں رہی ہیں، باجماعت نمازیں مسلمانوں کے آپس کے تعلقات، میل جول اور حالات سے آگاہی کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد، جنگوں اور دیگر ہنگامی حالات میں ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی رہی ہیں، یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلمین کو پناہ دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً مسجدِ پیرس دوسری جنگ عظیم کے دوران میں یہودیوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔
مساجد وہ جگہ ہیں جہاں سے اولین جامعات (یونی ورسٹیوں) نے جنم لیا۔ مثلاً جامعہ الازہر، جامعہ قرویین، جامعہ زیتونیہ وغیرہ، بیشتر مساجد میں مدارس قائم ہیں جن میں قرآن اور مذہب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ابتدائی تعلیم بھی دی جاتی رہی ہے۔ مشرقی ممالک کے دیہات میں کئی مساجد میں عمومی مدارس بھی قائم ہیں، بعض مساجد کے ساتھ اسلامی مراکز موجود ہیں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیقی مراکز قائم ہیں۔ (2)
وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔
اگر پورے سوات کا ذکر کریں، تو سوات میں دو تو پرانے مساجد موجود ہیں۔ پہلی مسجد سوات کے “سپل بانڈئی” نامی گاؤں میں موجود ہے جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔ سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔
یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ “دیار” کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے، تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔ اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے، تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا۔ (3)
دوسری مسجد سوات کے علاقے اوڈیگرام میں تقریباً ایک ہزار سال پرانی اور شمالی پاکستان کے ماہرین کے مطابق وہاں کی سب سے پرانی مسجد ہے جو “محمود غزنوی مسجد” کے نام سے مشہور ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے اہل کار نے بتایا کہ “یہ مسجد 1985ء میں ایک اطالوی ماہر اثار قدیمہ نے دریافت کی تھی۔ (4)
کچھ دن پہلے مَیں اور میرا پھوپھی زاد بھائی گاؤں میں ایک دعائے مغفرت کے لیے گئے تھے۔ واپسی پر اس نے کہا کہ یہاں پر ایک پرانا مسجد ہے آپ نے دیکھی ہے…؟ میں نے کہا نہیں، یہ سنتی ہی مجھے مجنوں گورکھپوری کا افسانہ “بڑھاپا” یاد آیا کہ احمد عرصہ کی غریب الوطنی کے بعد اپنے گاؤں پریم نگر میں پرانی اور ٹوٹی پھوٹی مسجد کی مرمت کے لیے بلایا گیا۔ وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا اور اسی گاؤں میں اس کی شادی بھی ہوئی تھی باوجود اس کے جب وہ گاڑی سے اسٹیشن پر اترے، تو اپنے گاؤں کے مناظر کو مشکل سے پہچان سکے۔ ہر چیز اپنی ہیئت بدل چکی تھی۔ سب سے پہلے جو چیز اس کی بدلی ہوئی نظر آئی وہ اس کی اپنی عمر تھی۔ جس وقت اس نے اپنے گاؤں کو قبضہ میں بسنے کے لیے چھوڑا تھا اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال لی تھی اور آج وہ پچاس سال کا تھا۔ اس کو پریم نگر کا اسٹیشن اس طرح نیا معلوم ہوا گویا اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ اسٹیشن کے کنارے کی جھاڑیاں اور آس پاس کے درخت اس کو اجنبی اور غیر مانوس نظر آ رہے تھے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اب یہی چیزیں پہلے سے بہت زیادہ بدصورت اور بدنما نظر آ رہی تھیں۔ کچھ اور آگے بڑھنے کے بعد احمد کو معلوم ہوا کہ غیر ذی شعور چیزوں سے کہیں زیادہ اس جوار کے انسان بدل گئے ہیں۔ درختوں اور جھاڑیوں میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ موانست اور ہمدردی باقی تھی۔ لیکن یہاں کے لوگ تو اس کو پہچاننے کی صلاحیت بھی کھو چکے تھے۔ احمد کو یہ جاننے میں دیر نہیں ہوئی کہ اس کے اکثر جاننے والے یا تو مر چکے ہیں یا زمین و آسمان کی ایک گردش میں امیر سے فقیر ہو چکے ہیں، یا جو لوگ اپنی پچھلی حالت پر ہیں وہ اس کو یک قلم بھول چکے ہیں۔ (5)
پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ مغرب کی نماز قریب ہے۔ نماز بھی پڑھ لیں گے اور مسجد بھی دیکھ لیں گے۔ مسجد میں موجود بڑے بوڑھوں سے خوش گوار بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں میں دو پرانے مساجد تھیں ایک یہ ہے اور دوسری (کوز جماعت) جس کی اب تعمیر ہو چکی ہیں۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا تھا کہ یہ دونوں مساجد سو سال سے زائد پرانے ہیں۔
مسلمانوں کے مسجد سے وابستہ مفادات، مسلمان کے مفادات دو طرح کے ہیں: دنیوی واخروی، دنیوی مفادات بھی دو قسم کے ہیں: ۱۔ اجتماعی ۲۔ انفرادی اور اخروی فوائد بھی دوطرح ہیں۔ انسان کے دونوں قسم کے مفادات کا تعلق مسجد سے ہی ہے۔ چاہے اس کی بیداری ہو یا اس کا اپنے رب کے حضور سر بسجود ہونا، اس کا اجتماعی جگہوں میں شریک ہونا ہو یا اس کا کسی کی غم خواری وہم دردی کرنا، اس کے مسائل کا حل ہو یا اس کے اعتکاف و مناجات بہت سارے دینی و دنیوی مفادات ہیں جو امت مسلمہ کےانہی مساجد سے وابستہ ہیں۔ مسجدوں کو آباد کرنے والے کام یاب رہے اور اسے ویران کرنے یا ویرانی کی کوشش کرنے والے تباہ وبرباد ہوئے۔ اسے تعمیر کی توفیق ہر فرد کو نہیں ہوتی، نہ اس کی خدمت کا موقع ہر ایک کو دیا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر و خدمت کا کام انبیائے کرام علیہ السلام اور خصوصاً دین ابراہیمی کا خاصہ رہا ہے۔ اس خدمت و تعمیر کا صلہ اللہ تعالا کی طرف سے امامت کی صورت میں دیا گیا۔ مسجد دنیا کا وہ حصہ ہے جو اللہ تعالا کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ جگہ جو آسمان والوں کے لیے ایسے چمکتی ہے جیسے زمین والوں کے لیے ستارے، جس میں شاہ وگدا سب برابر ہیں، جس کی عظمت واحترام کا حال یہ ہے کہ ناپاکی کی حالت میں اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، جو الفت و محبت کا درس دیتی ہے، جو باہمی بھائی چارگی اور اخوت کا مظہر ہے، جس کی طرف چلنا ایمان کی علامت ہے۔ (6)
شاہ نیاز احمد بریلوی کے بقول:
نکتۂ ایمان سے واقف ہو
چہرۂ یار جا بجا دیکھا
حوالہ جات:
1) جنگ ڈاٹ کام، “مسجد” کی عظمت و اہمیت اور اُس کا مقام و مرتبہ، اقراء، 2 جنوری 2022ء
2) اردو ویکی پیڈیا ڈاٹ کام ، مسجد
3) آئے آر وائی نیوز، صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!، عارف حسین، 2 دسمبر 2019ء
4) اردو انڈیپینڈنٹ، سوات کی محمود غزنوی مسجد جہاں بدھ مت عبادت گاہ بھی ساتھ ہے، اظہار اللہ، 8 اگست 2022ء
5) ریختہ ڈاٹ کام، “افسانہ” بڑھاپا، مجنوں گورکھپوری
6) جنگ ڈاٹ کام، “مسجد” کی عظمت و اہمیت اور اُس کا مقام و مرتبہ، اقراء، 2 جنوری 2022ء
______________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 26 جون 2024ء بہ روزِ بدھ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: