23 اپریل 1930ء کو قصہ خوانی بازار کے خونی واقعے پر اُتمان خیل قبائل کے ردِ عمل کے حوالے سے محمد شفیع صابر اپنی کتاب “تاریخِ صوبہ سرحد” کے صفحہ نمبر 884 پر رقم طراز ہے کہ؛ 23 اپریل 1930ء کو جب قصہ خوانی بازار پشاور کا خونی واقعہ پیش آیا، تو اس کے ردِ عمل میں مئی 1930ء میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے آباد اُتمان خیل قبائلی عوام نے شدید اختجاج کیا۔ ان کے ساتھ ہی باجوڑ کے اُتمان خیل کثیر تعداد میں انگریز سامراج سے پنجہ آزمائی کرانے کےلیے نکل آئے۔ جون کے مہینے میں اُتمان خیل قبائلی لشکر پیش قدمی کرتے ہوئے ہشت نگر قصبہ تنگی (چارسدہ) پُہنچا۔ یہاں انگریز سامراج نے فضائیہ کی مدد لی اور اُتمان خیل قبائلی عوام پر ہوائی جہازوں سے بمباری کی اور انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔ تاہم، اُتمان خیل قبائل نے پسپائی اختیار کرنے کے بجائے “جیندئی خوڑ” کے اردگرد مورچے سنبھالتے ہوئے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی۔
اس دوران میں انگریز سامراج نے سیاسی حربوں کی مدد سے کئی خوانین کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی۔ اگر چہ اُن کی کوششیں کسی حد تک کام یاب ہوئی لیکن پھر “فقیر آف الینگر” نے اُتمان خیل قبائلی لشکر کے ساتھ مل کر “جیندی خوڑ” کے اطراف میں انگریزوں کے خلاف کئی لڑائیاں لڑیں۔ جس کی وجہ سے انگریز سامراج کو جانی و مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ سرکاری علاقوں کے دیہات کو شدید نقصان پہنچا۔ آخر کار انگریز سامراج نے پھر کرنل سکاٹ (Colonel Scott) کی کمان میں ایک بڑا لشکر تنگی چارسدہ بیجھا جنہوں نے بھاری توپ خانے سے اُتمان خیل قبائلی لشکر پر بمباری شروع کی۔ جن میں ڈھیر سارے اُتمان خیل قبائلی شہید ہوئے۔”
قارئین، ہر سال 23 اپریل 1930ء کے قصہ خوانی بازار پشاور کے خونی واقعے کی یاد میں پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی اُتمان خیل کے ان شہیدوں اور غازیوں کی قربانی کا ذکر تک نہیں کرتا جنہوں نے جیندی خوڑ تنگی چارسدہ کے مقام پر اپنے خون کے نذرانے قصہ خوانی بازار کے خونی واقعہ کا بدلہ لینے کےلیے پیش کیے۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔