2018ء کو جب ملک میں عام انتخابات ہوئے، تو حزبِ اختلاف کے تمام جماعتوں کا ایک اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تمام اپوزیشن رہنماؤں نے شرکت کرتے ہوئے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور ساتھ ہی تحریکِ انصاف کی حکومت کو سلیکٹ شدہ کہا گیا۔ تمام جماعتوں نے الیکشن بارے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ مذکورہ اجلاس میں اسفندیار ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے چند تجاویز پیش کیں، جو کچھ یوں تھیں:
جو کچھ ہوا، اسے جمہوریت کے بقاء کے خاطر تسلیم کرکے حکومت کو پانچ سال دینے چاہئیں۔ کیوں کہ آئندہ بھی ہر نئی آنے والی حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا کر ایک دوسرے کو نہ تسلیم کرنے سے ملک نہیں چلے گا اور نقصان ہوگا۔ اس پوائنٹ پر دیگر جماعتوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔
اس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ تجویز قبول نہیں تو پھر اسمبلی میں نہ جائیں اور بحیثیتِ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی حلف نہ اُٹھائیں۔ کیوں کہ اگر حلف اٹھایا گیا، تو آئینی طور پر یہ الیکشن تسلیم تصور ہوگا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے اس پر بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہم حلف اُٹھا کر اسمبلی کے اندر اس مسلط شدہ حکومت کا مقابلہ کریں گے۔ بالآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ سب اسمبلی میں جاکر حلف اُٹھائیں گے۔
اس کے بعد جب سیاسی انتقام کا بازار گرم ہونے لگا تو تمام اپوزیشن جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنسز بلائیں۔ ان کانفرنسوں میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی خاطر تمام اپوزیشن کو ایک پیج پر اکھٹا کرنے کےلیے پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) وجود میں لایا گیا، لیکن بدقسمتی سے روزِ اوّل ہی سے پی ڈی ایم اندرونی اختلافات کا شکار رہی جس کی واضح ثبوت محسن داوڑ کا باہر ہوجانا تھا۔ بہر حال پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے مل کر ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت پر دباؤ ڈالا گیا۔ لیکن صورتِ حال ضمنی اور پھر سینیٹ انتخابات میں واضح ہو گئی۔ جب پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کی حامی اور مسلم لیگ مخالف تھی۔ سینیٹ الیکشن کے بعد حالات اس حد تک پہنچے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی مزاحمت کو مفاہمت میں بدلا اور اے این پی نے پی ڈی ایم سے نکلنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اے این پی نے پی ڈی ایم سے نکلنے کا اعلان کیا، تو تحریکِ انصاف، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی سمیت کئی سیاسی پارٹیوں والوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا کہ اے این پی نے ولی خان کا نظریہ دفن کردیا۔
قارئین، سرِدست ان ناسمجھ لوگوں کےلیے چند دلائل دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
پی ڈی ایم اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ فیصلہ کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اے این پی آج بھی متفقہ چارٹر کے اصولوں پر قائم ہے۔ پورے پاکستان میں پی ڈی ایم کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں اے این پی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خیبر پختون خوا میں جنرل نشستوں کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ ن نے کسی کو اعتماد میں لیے بغیر تیسرا امیدوار لائی جو فرحت اللہ بابر اور خود مسلم لیگ کی شکست کا باعث بنا۔
پنجاب میں سینیٹ انتخابات کےلیے مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد ہوا۔ پیپلز پارٹی کو ہرانے کےلیے لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہوا لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اے این پی نے ووٹ بارے جمعیت علمائے اسلام اور مسلم لیگ (ن) کو وضاحت دی ہے کہ ہم نے کیوں گیلانی کو ووٹ دیا، لیکن اس کے باوجود اے این پی ہی کو شوکاز نوٹس دیا گیا۔ استعفوں کے معاملے پر اے این پی میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ پی ڈی ایم سربراہی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ لانگ مارچ سے پہلے مل کر استعفا دیں گے۔ کیوں کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کی کوئی اہمیت نہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو ایک دوسرے کے امیدواروں پر تحفظات تھے۔ اس سلسلے میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بلاکر دونوں کے تحفظات کوختم کرنا چاہیے تھا۔
اے این پی نے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ اگر ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں اے این پی سے اس بارے پوچھا جاتا تو اے این پی اپنا موقف سامنے رکھتی اور وضاحت کرتی۔
قارئین، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر اے این پی نے پی ڈی ایم سے نکلنے کا اعلان کیا۔ بقولِ امیر حیدر خان ہوتی، شوکاز نوٹس کے ذریعے اے این پی کے سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ یہ سیاسی جماعتوں کے اندر دیے جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم سیاسی جماعت نہیں بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد ہے۔ پارٹی میں جواب طلبی اور شوکاز نوٹس کا اختیار صرف اسفندیار ولی خان کو ہے۔ لہٰذا موجودہ صورتِ حال میں اے این پی پی ڈی ایم کے ساتھ مزید نہیں چل سکتی۔
قارئین، اے این پی نے ہمیشہ مزاحمت کی سیاست کی ہے۔ اگر دیگر جماعتوں کی طرح اے این پی کرسی اور اقتدار کی سیاست کرتی، تو 1970ء میں اکثریت رکھنے کے باوجود وزارتِ اعلا کا منصب مفتی محمود کو نہ دیتے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اے این پی ہی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی اُصولوں اور پختون قوم کی بقا کی خاطر دو بار اقتدار کو لات ماری ہے۔ جو لوگ پی ڈی ایم سے نکلنے پر اے این پی قیادت اور کارکنوں کو بزدلی کا طعنہ دے رہے ہیں، ان کو بھی حقائق کا پتا ہونا چاہیے کہ اے این پی اُس تحریک کا تسلسل ہے جب آپ کی نام نہاد لیڈر، انگریزوں کی غلامی کیا کرتے تھے۔ اُس وقت خدائی خدمت گار تحریک باچا خان کی قیادت میں انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اے این پی غدار ولی خان کی قیادت میں ایوبی مارشل لا کے خلاف اور جمہوریت کی بقا کی خاطر فاطمہ جناح کے کیمپ میں موجود تھی، جب کہ آپ کے محب وطن لیڈرز کہیں اور تھے۔ دو ہزار آٹھ میں جب اے این پی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ڈٹ کر میدان میں تن تنھا کھڑی تھی، تب آپ نے دہشت گردوں کو اپنا بھائی بنا کر اُنہیں دفاتر کھولنے کی پیش کش کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کو طعنہ دینے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ اے این پی قیادت اور کارکنان نے اپنی جاں تو قربان کردی، لیکن پختون دھرتی پر دہشت گردوں کو قابض نہیں ہونے دیا۔ پاکستان میں آئین کی حکم رانی، جمہوریت کی بحالی اور پختون وطن کے وسائل پر پختونوں کے حقوق کی خاطر اے این پی میدان میں پہلے بھی کھڑی تھی، اب بھی کھڑی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
_____________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر آج یعنی کو 10 اپریل 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔