قارئین، احمد رضا قصوری پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اولین راہ نماؤں میں سے ایک تھے مگر جلد ہی ان کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان زبردست جنگ شروع ہو گئی۔
چار جون 1974ء کو وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے۔ تقریر کے دوران مَیں انہوں نے کہا کہ “آئین پر حزبِ اختلاف کا شور اور واویلا بلاجواز ہے۔ کیوں کہ حزبِ اختلاف کے تمام ارکان نے آئین پر دستخط کیے ہیں اور یہ آئین ایک متفقہ آئین ہے۔”
اس پر احمد رضا قصوری نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، “جناب سپیکر، رتو ڈیرو سے آنے والے فاضل مقرر غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مَیں نے آئین پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس نے اس کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آئین پر سب نے دستخط کیے ہیں اور یہ متفقہ آئین ہے…؟”
قصوری کی مداخلت اور ان ریمارکس پر بھٹو طیش میں آ گئے اور انہوں نے قصوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلاتے ہوئے کہا:
I have had enough of this man. He is absolute poison. We will not tolerate him anymore.
(میں نے اس شخص کو بہت برداشت کر لیا ہے۔ یہ مجسم زہرِ قاتل ہے۔ اب ہم اس کو قطعی برداشت نہیں کریں گے)
قارئین، یہ وہ تقریر تھی جس کی وجہ سے احمد رضا قصوری اور بھٹو کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے اور ملک کے ایک منتخب وزیرِ اعظم کو پھانسی گھاٹ تک گئے۔
شیئرکریں: