خیبر پختون خوا میں گذشتہ 24 برس میں جنگلات کے رقبے میں 20 فی صد کمی کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ انکشاف "پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس” کے حالیہ ایک جائزہ رپورٹ میں ہوا ہے۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق سالانہ 27 ہزار ہیکڑ رقبے پر جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جنگلات میں کمی آنے کے باعث بے وقت بارشیں، طویل خشک سالی اور آلودگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں پشاور کا ذکر کرکے بتایا گیا ہے کہ یہاں زرعی اراضی پر کمرشل تعمیرات ہو رہی ہیں جب کہ درجنوں باغات اجڑ گئے ہیں۔ اسی طرح صوبے میں جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
اس حوالے سے ماہر موسمیات و سابق چیف میٹرو لوجسٹ مشتاق علی شاہ کہتے ہیں کہ "کلائیمٹ چینج” اور جنگلات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جنگلات دو قسم کے کام کرتے ہیں ایک تو یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس پر پودوں کی زندگی چلتی ہے۔ دوسرا اہم کام اسکا یہ ہے جب بارشیں ہو جاتی ہیں تو نہریں، دریاء، چشمے وغیرہ میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے یہ مٹی، ریت، پتھر وغیرہ اپنے ساتھ بہا لیتا ہے۔ اسی طرح پودے، گھاس، جڑیں بوٹیاں بھی جتنی زیادہ مقدار میں ہو تو پھر پانی اگر زیادہ مقدار میں بہہ بھی جائے، تو یہ زمین کو کٹاؤ سے بچا لیتی ہے اور پھر نقصانات کم ہوجاتے ہیں۔
مشاق علی شاہ کہتے ہیں کہ حالیہ سالوں کے دوران میں دیکھا گیا ہے کہ صوبے کے پہاڑی علاقوں جیسے سوات، چترال، کوہستان وغیرہ میں جہاں جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے، تو وہاں پر فلیش فلڈز میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پہاڑی سلسلوں پر بارشیں ہو جانے کے باعث پانی بہت تیزی سے نیچے کی اطراف میں بہہ کر اپنے ساتھ پتھر وغیرہ بھی بہا کر آبادیوں پر گرنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہاں جنگلات کم مقدار میں ہونے کے باعث پانی کو مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا۔ لہذا آبادیوں کا بہت بڑا نقصان ہو جاتا ہے اور اسی طرح پل وغیرہ بھی با آسانی ٹوٹ یا گر جاتے ہیں۔ شانگلہ ہو، کالام ہو، کوہستان یا ہزارہ ڈویژن بعض مقامات پر جہاں اب لینڈ سلائیڈنگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ وہاں جنگلات میں مسلسل کمی واقع ہونا ہی ہے۔
جہاں پر زرعی اراضی کا تعلق ہے، تو دیکھا جا رہا ہے کہ ان اراضیوں پر چھوٹے چھوٹے ٹاؤنز یا ہاوسنگ سوسائیٹیز بنتے جا رہے ہیں جس کےلیے گرینری کو ختم کیا جا رہا ہے۔ پھر بارشیں ہو جانے کی صورت میں پانی کا جو انڈر گراؤنڈ سسٹم ہے، تو وہ پانی جذب ہو کر ہم اس کو دوبارہ قابل استعمال بناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پانی کی مقدار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اوپن لینڈز میں مشنز یعنی گیسز کے اخراج کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں جب کہ گرینری میں کم لہذا گرینری میں کمی آنے کی وجہ سے گرین ہاوس پر بھی منفی اثرات پڑ جاتے ہیں۔ گرین ہاوس مضبوط ہونے کی صورت میں درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس کا براہ راست اثر فصلوں یا باغات پر بھی پڑ جاتا ہے۔
مشتاق علی شاہ کہتے ہیں کہ آج سے پچاس سال قبل پشاور، تیراہ، مہمند، باجوڑ، تیمر گرہ جیسے علاقوں میں بھی سیب کی پیداوار ہوتی تھی لیکن اب چترال، سوات یا ہزارہ میں اس کی پیداوار وہاں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح پیچ پشاور میں بھی اگایا جاتا تھا لیکن اب وہ سوات میں تو اگایا جاتا ہے لیکن یہاں نہیں۔ اسی طرح کئی فصلیں یا پھل اب اس لئے ختم ہو رہے ہیں کہ گرینری میں کمی واقع ہو کر گرین ہاوس مضبوط ہو کر درجہ حرارت پر اثرات پڑ رہے ہیں اس سے وہ فصلیں یا پھل شدید متاثر ہو چکے ہیں۔
ایک بڑا اثر یہ بھی پڑ چکا ہے کہ گرمی کی شدت میں جب سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو اب ائیر کنڈیشنز کا استعمال بڑھ کر توانائی بھی زیادہ خرچ ہو رہی ہے۔ پھر تو انرجی کرائسز آنا ہی تھے۔ جہاں پودوں کی کٹائی کےلیے اصول واضح ہیں، تو ایک پودا ختم کرنے کی صورت میں دو لگانے ہوتے ہیں۔ اگر دو نہیں تو کم از کم ایک تو لگانا چاہئیے۔ جہاں زرعی اراضی کی بات ہے اگر پشاور کا مثال لے کر کوہاٹ روڈ، ریگی للمہ یا چارسدہ روڈ پر دیکھا جائے، تو سب سے سے زیادہ زرعی زون تو یہی تھا اب ہاؤسنگ سوسائٹیز یہاں بن گئی ہیں۔ اگر یہاں تعمیرات کرانے بھی تھے لیکن اس کا متبادل زرعی زون کا بندوست تو کیا جاتا، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور کا بہت نقصان ہوا اب دنیا کے آلودہ شہروں میں اس کا شمار کیا جا رہا ہے۔
مشتاق علی شاہ کہتے ہیں جب شہر میں آلودگی بڑھ گئی، تو گرد و غبار میں اضافہ ہو کر دمہ، شوگر، ڈینگی جیسے بیماریاں بڑھ گئیں۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ ایک جامع منصوبہ بندی کرکے نہ صرف جنگلات بڑھائے جائیں بلکہ ہر طرح کی گرینری کو بڑھانے کےلیے بھی اقدامات اٹھائے جائیں لیکن یہ ایک فرد یا ایک ادارے کا کام نہیں۔ اس کے لیے وائلڈ لائف، محکمہ زراعت، لائیو سٹاک، جنگلات، ایریگیشن، ماحولیات، ہاؤسنگ، پی ڈی اے، کوہاٹ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سمیت تمام متعلقہ اداروں نے مل کر بیٹھ کر ایک جامع پالیسی بنانی ہوگی۔ تمام ادارے پہلے کئے گئے نقصانات کا بھر پور جائزہ لے اس کے بعد آگے کےلیے ایک بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ پر حکام محکمہ ماحولیات خیبر پختون خوا کا کہنا ہے کہ وہ اس جائزہ رپورٹ سے بالکل بھی اتقاق نہیں کرتے۔ خیبر پختون خوا میں تو جنگلات کا رقبہ 18 فی صد سے 26 فی صد تک بڑھ چکا ہے۔ اسی طرح صوبے میں 27 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات کی صفائی کا جو دعوا کیا گیا ہے، یہ بھی محض ایک کاغذی بیان دینے کے مترادف ہے جیسا کہ ان کو اس دعوے کا ثبوت بھی فراہم کرنے چاہیے تھے۔
حکام محکمہ ماحولیات کے مطابق خیبر پختون خوا میں کئی جنگلی حیات کالا ریچھ، بورا ریچھ، عام چیتے، برفانی چیتے، مارخور، پہاڑی بکرا، ڈولفن، لگڑ بگڑ، بھیڑیا، لومڑی، مہرا لنگور، گورل، ہرن، برفانی تیندوا، تیندوا، بندر، گیدڑ، کالا تیتر، بھورا تیتر، چکور، خرگوش بطخ، کونج، جیسے جانوروں کی موجودہ اقسام کے میملز کے 94، پرندے 453 اور حشرات کے 56 اقسام اب بھی خیبر پختون خوا میں موجود ہیں۔ صوبے میں گذشتہ کئی سالوں کے دوران میں کسی بھی قسم کی جنگلی حیات کی ذات ختم نہیں ہوئی لیکن بعض جانداروں کی بقاء بعض وجوہات کی بناء پر خطرے سے ضرور دو چار ہے۔ وجوہات میں زرعی زمینوں پر حشرات کش، جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے والے ادویات اور بے ہنگم گھروں کی تعمیرات شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اگر ڈی فاریسٹیشن ہوتی، تو سوال یہ بنتا ہے کہ پھر جنگلی حیات کو نقصان کیوں نہیں پہنچا۔ لہذا مزکورہ رپورٹ بغیر زمینی حقائق و تحقیق کے جاری کی گئی۔