قارئین، ٹپہ پشتو شاعری کی سب سے قدیم اور مقبول صنف ہے جس میں پہلی سطر بعد والی لائن سے چھوٹی ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ تمام انسانی احساسات اور خواہشات کی خوب صورتی سے عکاسی کرتی ہے۔ مزدور ہوں، کسان یا عورتیں، سبھی کے جذبات کا اظہار ٹپہ میں ملتا ہے۔ پشتونوں میں یہ بات بھی عام ہے کہ سکول کا لڑکا اسے گاتا ہے۔ حجروں میں بزرگ اور گھر میں خواتین بھی اسے گاتی ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ واحد گانا ہے جو خوشی اور غمی دونوں میں گایا جاتا ہے۔
قارئین، ٹپہ ایک ادھورا شعر ہوتا ہے جس کا پہلا مصرعہ 13 سیلاب (Syllables) پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب کہ دوسرے مصرعے میں 19 آوازایں یا سیلابیں ہوتی ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کےلیے گلوکار ٹپہ سے پہلے “یا قربان” یا “یکہ زار” اونچی آواز میں گا کر اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی لازمی ہے کہ ٹپے کا دوسرا مصرعہ “ھ” پر ختم ہو، ورنہ پھر یہ ٹپہ نہیں ہوتا۔

ٹپہ پشتو لوک شاعری کی ایک بے مثال صنف ہے، جسے رباب کے ساتھ گایا جاتا ہے۔
فوٹو: ابدالؔی

قارئین، موسیقی میں اسے روایتی پشتو موسیقی کے آلات یعنی رباب اور منگی کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ ٹپہ میں ہم آہنگی کے 16 مختلف ماڈلز ہیں اور اسے پورے آرکسٹرا کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ حجرہ میں اسے رباب اور ستار کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پشتو فوک لور میں ٹپہ ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ رکھتی ہے۔ جاتے جاتے کچھ ٹپے ملاحظہ ہو:
☆ کہ می دیدن لہ خدایا غواڑی
چرتہ غورزنگ د پختون گورہ زہ بہ یمہ
☆ بچیا پاسہ پیشمنے دے
پہ دی غگ پسی غوگونہ گرزومہ
☆ سپوگمئی کڑنگ وھا راخیجہ
یار می د گلو لو کوی گوتے ریبینہ
☆ یو زلے لاس پہ لاس کے را کہ
دَ لاس نیوَل بہ دی تر عُمرہ یادومہ
شیئرکریں: