لفظ “حاشیہ” عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ جو اُردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطورِ اسم مستعمل ہے۔ حاشیہ کے معنی “کسی چیز کے طرفین اور کنارے” کے ہیں۔
لغت نامہ میں علی اکبر نے حاشیہ کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہے: “حاشیہ متن کا متضاد ہے۔ اس سے وہ عبارت مراد ہوتی ہے جو کسی کتاب کے صفحے کے کنارے پر لکھی جاتی ہے اور اس میں متن پر اضافوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ شرح بھی ہوتی ہے جو کسی متن پر لکھی جاتی ہے۔”
جب کہ “اصولِ تحقیق” کے فاضل مصنف حاشیہ کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ: “کتب و رسائل میں حاشیہ کے معنی متن کے ہر سہ طرف چھوڑا ہوا سادہ صفحہ بھی ہوتا ہے اور اس صفحہ پر لکھی ہوئی تحریر بھی، جن کا تعلق متن کے معنی و توضیح اور ذیلی حواشی سے ہوتا ہے۔”
قارئین! حاشیہ کسی متن میں موجود کسی لفظ یا الفاظ کے معنی، ترجمے، مختصر تشریح اور وضاحت کو کہتے ہیں۔ یہ کتاب کے حاشیے پر شائع پر ہوتا ہے، اسی لیے اس کا نام حاشیہ پڑ گیا ہے۔ حاشیہ ضروری نہیں کہ متن کی زبان میں ہو، کبھی کبھار اصل متن میں کسی دوسری زبان کے متن کے اقتباس کا ترجمہ کتاب کے حاشیے پر دیا جاتا ہے۔ متن میں کسی شخصیت، کتاب، شہر یا اہم واقعات کا ذکر جب سرسری ہو یا فقط نام ہی آئے، تو حاشیہ میں اس کا مختصر تعارف شامل کیا جاتا ہے۔ غرض ہر وہ تحریر جو اصل متن کے ساتھ حاشیوں پر شائع ہو، اسے حاشیہ کہا جاسکتا ہے۔
شیئرکریں: