قارئین، امیر حمزہ خان شینواری کی وفات کو پورے تیس سال بیت گئے۔ مگر ان کی کہی ہوئی شاعری اور لکھی ہوئی نثر کی اہمیت، مقبولیت اور ضرورت اور بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پشتو زبان و ادب میں شاعرِ انسانیت عبدالرحمان بابا کے بعد امیر حمزہ خان شنواری وہ واحد شاعر ہیں۔ جنہوں نے پوری پختون قوم میں اپنے لیے ایک “ادبی اعتبار” حاصل کیا ہوا ہے اور جس طرح پختونوں کے چھوٹے بڑے رحمان بابا کے اشعار پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں، اسی طرح امیر حمزہ خان شنواری کے بارے میں بھی ان کا پکا یقین ہے کہ جو بات حمزہ بابا نے کہی ہے وہ ہمارے لیے قابلِ عمل اور مشعل راہ ہے۔
قارئین، موصوف کو اپنی زندگی میں اپنے چاہنے والوں اور پشتو کے نامی گرامی ادیبوں اور نقادوں نے ادبی قلم رو کا بے تاج بادشاہ، بابائے غزل، رئیس المتغزلین، پشتو کا ارسطو اور فخرِ خیبر جیسے القابات سے نوازا ہے۔
وہ پاکستان اور افغانستان میں آباد پختونوں میں ایک نام ور شاعر، ادیب، صوفی، مفکر، فلسفی، ناول نگار، ڈراما نگار، سفر نامہ نگار اور افسانہ نگار کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں۔ انہیں پشتو ادب میں قدیم اور جدید ادب کے درمیان میں پُل کی حیثیت حاصل ہے کیوں کہ ان کی شاعری اپنی قدیم روایات اور جدید رجحانات کا ایک حسین امتزاج ہے۔
قارئین، امیر حمزہ خان شینواری 1907ء کو ستمبر کے مہینے میں درہ خیبر کے ایک پس ماندہ علاقے لنڈی کوتل میں ملک باز میر خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1913ء میں اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں داخل کر دیے گئے۔
سکول میں جب وہ اپنی تختی پر پٹی لکھنے بیٹھ گئے، تو پٹی کے بجائے تختی پر انسانوں کے مختلف خاکے کھینچے۔ یہ دیکھ کر وہ خوشی سے جھوم اٹھے کہ میرا یہ کارنامہ دیکھ کر استاد مجھے شاباش اور انعام دے گا۔ مگر وہ حمزہ شینواری کی خوش فہمی ثابت ہوئی اور استاد نے انہیں شاباش دینے کی بجائے ڈنڈے سے ایسی مرمت کی جو حمزہ بابا مرتے دم تک نہیں بھول پائے۔ اس واقعے کے بعد ان کا سکول سے دل بھر گیا۔ چناں چہ وہ پڑھائی سے جی چرانے لگے اور اکثر اوقات سکول سے غیر حاضر رہنے لگے۔ گھر سے تختی اور بستہ لے کر قلعہ لنڈی کوتل کے قریب قبرستان میں یا تو مزار امیر بادشاہ یا اپنی والدہ کی قبر کے پاس ٹیک لگا کر سو جایا کرتے تھے۔ ان کی عمر تین برس سے بھی کم تھی جب ان کی والدہ انتقال کر گئیں۔ والدہ کی وفات کے بعد ان کی تربیت ان کی سوتیلی ماں نے اس انداز میں کی کہ حمزہ کو کبھی بھی یتیم ہونے کا احساس ہونے نہیں دیا۔
سکول سے مسلسل غیر حاضر رہنے کی وجہ سے انہیں والد اسلامیہ کالجیٹ سکول پشاور لے آئے، تاکہ یہاں بورڈنگ میں رہنے کی وجہ سے وہ سکول سے بھاگ نہ سکے۔ 1918ء میں وہ دوسری جماعت میں داخل کر دیے گئے اور وہاں تھرڈ ہاسٹل میں رہنے لگے۔ مگر یہاں بھی وہ پڑھائی میں دل چسپی نہیں لیتے تھے۔ ہاسٹل میں ان کے برابر والے کمرے میں شہزادہ جہان زیب (سابق والئی سوات) اور ان کے چچیرے بھائی شاہ روم بھی رہتے تھے۔ شاہ روم ان کے ہم جماعت تھے۔ صفائی کے معاملے میں ان کی حالت یہ تھی کہ کپڑوں اور بسترے میں جوئیں پڑگئیں۔ جس کی وجہ سے انہیں معروف پختون قوم پرست راہ نما میاں جعفر شاہ، “سپگن” یعنی جوؤں سے بھرا ہوا لڑکا کہا کرتے تھے۔
قارئین، حمزہ خان شینواری نے پانچویں جماعت سے اُردو زبان میں شاعری کی ابتدا کی۔ انہیں بچپن سے ہی اُردو زبان پر اتنا عبور حاصل تھا کہ ہر سال امتحان میں اُردو کے مضمون میں اول پوزیشن لیتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنے استاد مرزا عباس بیگ ڈبل اور ٹرپل “اے” (a) دیا کرتے تھے۔ مگر ایک دن وہ کسی بات پر ناراض ہو گئے اور “اے” کو “ڈی” میں بدل کر کہا کہ کس منحوس کے بچے نے تجھے “اے” دیا ہے۔ حمزہ کے منھ سے بے اختیار نکلا کہ “آپ نے” جس کی پاداش میں انہیں ایک گھنٹے تک بینچ پر کھڑا رہنا پڑا۔ اس زمانے میں علامہ عنایت اللہ خان مشرقی (خاکسار تحریک کے بانی) اسلامیہ کالجیٹ سکول کے پرنسپل ہوا کرتے تھے جن سے حمزہ کی کچھ زیادہ جان پہچان نہ تھی۔
بعد میں جس وقت وہ 1938ء میں ریکارڈنگ کے سلسلے میں دہلی گئے اور خاکسار ہوٹل میں رہایش کے دوران میں علامہ مشرقی سے ان کی ملاقات ہوئی، تو انہوں نے حمزہ شینواری کو کہا کہ “دیکھو جی یہ عبدالغفار خان (باچا خان) آپ لوگوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں اور تم لوگ اندھوں کی طرح ان کے اشاروں پر چل رہے ہو۔” حمزہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ “جناب، اگر ہندوستان کے دوسرے راہ نما ہمیں کچھ اور بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں ہے۔ عبدالغفار خان تو پانچ وقت کے نمازی اور ایک کھرے پختون اور مسلمان ہیں”۔ علامہ مشرقی نے جب ان سے پشاور میں مضبوط سیاسی پارٹی کے بارے میں پوچھا، تو حمزہ شینواری نے کہا کہ پشاور میں تو ایک ہی پارٹی ہے جس کا نام ہے انڈین نیشنل کانگریس۔ اس کے سوا دوسری پارٹیوں کی حیثیت برساتی مینڈکوں کی ہے۔
دوران تعلیم ان کے ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ سید قمر علی شاہ ہوا کرتے تھے جو اردو اور فارسی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ انہوں نے حمزہ شینواری کے متعلق کہا تھا “یہ خبیث ضرور شاعر بنے گا”۔ بعد میں جب افغانستان میں اگست 1948ء میں کابل ریڈیو کے ایک مشاعرے میں ان کی حمزہ سے ملاقات ہوئی، تو کہنے لگے “دیکھا میری پیش گوئی سچ ثابت ہوئی ناں”۔
قارئین، ہاسٹل میں رہایش کے دوران میں حمزہ شینواری ایک شب پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے اپنے بستر سے اٹھ کر بیت الخلا چلے گئے۔ چوں کہ سخت نیند سے جاگے تھے اس لیے جوں ہی بیت الخلا میں بیٹھے، تو سو گئے۔ جس کی وجہ سے ہاسٹل کے اندر اور باہر ان کی تلاش شروع ہو گئی۔ ساتھیوں نے سمجھا کہ وہ سکول سے بھاگ گئے ہیں۔ مگر رات کی تاریکی میں کہیں بھاگ کر جانا انہیں ناممکن سا لگ رہا تھا۔ پھر سوچا کہ شاید انہیں کوئی اغواء کر کے لے گیا ہے۔ اس دوران میں ایک ساتھی نے بیت الخلا کا دروازہ اندر سے بند دیکھا۔ کئی بار دروازہ کھٹکٹایا، آوازیں دیں۔ مگر حمزہ تھے کہ نیند سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
بیت الخلا کے دروازے پر چڑھ کر اس لڑکے نے دیکھا کہ حمزہ ٹیک لگا کر سوئے ہیں تو اس نے حمزہ کو آوازیں دیں اور جب وہ پھر بھی بیدار نہ ہوئے، تو اپنی چپل اتار کر ان کے سر دے پر ماری ، تب حمزہ نیند سے بیدار ہوئے ۔ دیگر ساتھیوں نے بھی ان کی خوب خبر لی ۔ حمزہ شینواری کو سکول سے اتنی نفرت پیدا ہو گئی تھی کہ جب صبح سکول کی گھنٹی بجتی تو انہیں وہ صور اسرافیل لگتی تھی بعد میں بھی جب وہ اسلامیہ کالجیٹ کے سامنے سے گزرتے تو ان پر کپکی طاری ہو جاتی تھی ۔ حمزہ کو موسیقی سننے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ خود بھی ایک اچھے اور مانے ہوئے رباب نواز تھے ۔
وہ اردو، تاریخ اور انگریزی میں اچھے نمبر لیا کرتے تھے۔ تاہم، حساب اور جغرافیہ میں سخت نالائق واقع ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک بار مڈل کے امتحان میں فیل بھی ہوئے تھے۔ نویں جماعت پاس کرنے کے بعد سکول کو خیر باد کہہ گئے اور 1924ء میں طورخم کے مقام پر پاسپورٹ کلرک بھرتی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ قبائلی پولیٹیکل نظام میں بھی بطور کلرک رہ چکے ہیں۔ اس دوران میں ان کی شادی بھی کرا دی گئی۔ 1926ء میں جب خیبر ریلوے پر کام شروع ہوا اور ان کے والد کو بھی اس میں ٹھیکہ ملا، تو اپنے والد کے منشیوں کے ساتھ حساب کتاب میں معاونت کیا کرتے تھے۔ بعد میں ریلوے میں ملازمت بھی اختیار کی۔
چھے ماہ تک گارڈ کے طور پر ڈیوٹی دی مگر کچھ دنوں کے بعد ارباب محمد ذکریا خان کی سفارش پر ٹی ٹی اے مقرر کر دیے گئے۔ حمزہ شینواری اپنی سیمابی فطرت کی وجہ سے دیر تک ایک جگہ ملازمت نہیں کر سکتے تھے۔
محکمہ ریلوے سے مستعفی ہو کر اپنے ایک دوست میر عالم کے ہم راہ فلموں میں کام کرنے کی غرض سے بمبئی اور دہلی تک گئے۔ وہاں ایک مہینے تک رہے مگر کسی فلم کمپنی میں کام نہیں ملا۔ بعد میں ان کے اپنے بھائی انہیں احمد آباد کے راستے اجمیر شریف لے گئے اور خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار پر حاضری دی جہاں ان پر ایک عجیب قسم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ یہیں سے ان کے اندر کے صوفی نے انگڑائی لی۔ آنسو تھے کہ دریا کی مانند امڈے چلے آرہے تھے۔
قارئین، 1930ء کو فلمی دنیا میں داخل ہونے کے لیے راول پنڈی بھی گئے اور وہاں پنجاب فلم کمپنی کے ڈائریکٹر ہری رام سیٹھی سے ملے۔ اس نے لاہور آنے کی دعوت دی اور لاہور جا کر انہیں ایک خاموش فلم میں قافلے کے محافظ کا کردار دیا گیا جس وقت واپس گاؤں آئے، تو ان کے والد وفات پا چکے تھے۔
ان کے والد کی فاتحہ کے لیے آئے ایک روحانی شخصیت سید عبدالستار شاہ عرف بادشاہ جان سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کے مرید بن گئے اور 1938ء میں ان کے ہاتھ بیعت کی اور اپنے اس مرشد کی ہدایت پر اپنی مادری زبان پشتو میں لکھنا شروع کر دیا۔ 1937ء میں تصوف کے موضوع پر پہلی کتاب “تجلیات محمدیہ” لکھی۔ 1938ء میں ان پر الحاد کا دور آیا جو پانچ سال تک جاری رہا۔ دسمبر 1941ء میں دوبارہ بمبئی چلے گئے اور رفیق غزنوی کے کہنے پر پہلی پشتو فلم “لیلیٰ مجنوں” کے لیے گیت اور مکالمے لکھے۔
حمزہ اس وقت ہفت روزہ اخبارات میں سے اکثر “پارس” کا مطالعہ کیا کرتے تھے جس کے ایڈیٹر کرم چند اور نائب مدیر سیوک رام باقر ہوا کرتے تھے اور دونوں حمزہ شینواری کا بڑا احترام کرتے تھے۔ اس اخبار میں ان کے افسانے اور مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔ 1939ء میں بننے والی ادبی تنظیم “بزم ادب پشتو” کے نائب صدر جب کہ 1951ء میں پشتو کی معروف ترقی پسند ادبی تنظیم “اولسی ادبی جرگہ” کے صدر بھی رہے۔
وہ پاکستان رائٹرز گلڈ سابق صوبہ سرحد کے اولین سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ 1946ء کو وہ آخری بار اجمیر شریف گئے وہاں سے واپس آئے، تو تحریک پاکستان شروع ہو چکی تھی۔ اپنے مرشد کے کہنے پر تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور امین الحسنات المعروف پیر مانکی شریف کے ساتھ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس مقصد کے لیے اپنے گاؤں لنڈی کوتل میں ہر جمعہ کے روز تقریر کیا کرتے تھے۔ انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کے دورہ خیبر کو ناکام بنانے میں بھی ہم کردار ادا کیا تھا۔
قارئین، مترجم کی حیثیت سے انہوں نے رحمان بابا کی 204 غزلوں کا منظوم اردو ترجمہ اور علامہ اقبال کے “جاوید نامہ” اور “ارمغان حجاز” کا بھی پشتو میں منظوم ترجمہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی ناراضگی کے باوجود اس لڑکی سے شادی کی جس سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کی وہ بیوی پندرہ سال کے بعد انہیں داغ مفارقت دے گئی۔ حمزہ نے اپنی شاعری کی کتاب “غزونے” (انگڑائیاں) کی بیشتر غزلیں اپنی اس بیوی کے فراق میں لکھی ہیں اور جس کی وجہ سے وہ دو سال تک گمُ صُم رہے۔
1935ء میں جب پشاور سیکرٹریٹ کے اندر آل انڈیا ریڈیو کی شاخ قائم ہوئی اور اس کے انچارج محمد اسلم خٹک مقرر ہوئے، تو اس کے لیے حمزہ شینواری نے پہلی بار “زمین دار” کے نام سے ایک ڈراما لکھا۔ اس کے بعد قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں انہوں نے پشاور ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچرز اور تقریریں لکھیں۔
قارئین، موصوف کو 1940ء میں منعقدہ ایک مشاعرے میں پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب سمندر خان سمندر نے پشتو غزل کے بادشاہ کے خطاب یعنی “بادشائے غزل” سے نوازا۔
سکول کے زمانے میں وہ ہاکی کے بہت شوقین رہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک مانے ہوئے بٹیر باز بھی تھے۔ ایک دفعہ کسی سے بٹیر چرا کر اکھاڑے میں لے آئے جو لڑائی میں ہار کر بھاگ گیا۔ تماشائیوں میں سے کسی نے بلند آواز سے کہا کہ پرائے چرائے ہوئے بٹیر پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ جس پر حمزہ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص محظوظ ہوا۔ حمزہ شینواری روزانہ تین سگریٹ پیا کرتے تھے۔ وہ نسوار بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ حمزہ کی ایک انفرادیت یہ بھی رہی کہ ساری عمر اپنے قومی اور سادہ قبائلی لباس میں ملبوس رہے۔ وہ 35 کتابوں کے مصنف تھے جن میں تصوف، شاعری، نفسیات اور ادب کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں شامل ہیں۔
ان کا لکھا ہوا ناول “نوے چپے” (نئی موجیں) چودہ ابواب پر مشتمل مشہور ناول ہے۔ جس کا مرکزی خیال پختون اتحاد پر مبنی ہے۔ ناول کا خاکہ 1947ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا لیکن ایوب خان کے دور حکومت میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناول میں مذہب، سیاست، قومیت اور ادب جیسے بین الاقوامی مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے ریڈیائی ڈراموں میں ژرندہ گڑے (پن چکی چلانے والا) بے حد مشہور ڈراما ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے ہیں۔ “ژرندے گڑے” کے قصے میں پختون معاشرے کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ اس ڈرامے کا قصہ پن چکی سے شروع ہوتا ہے اور پن چکی پر اختتام کو پہنچتا ہے۔
انہوں نے پہلا افسانہ خارغلی مورچہ (محاذ خارغلی) لکھا ہے جس میں افغانستان کے 1919ء کے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سیاسی شخصیات میں وہ خان عبدالغفار خان کو ایک بہترین مصلح، محب وطن اور عظیم قومی راہ نما کے طور پر پسند کرتے تھے اور ان پر لگائے گئے الزامات کی پر زور الفاظ میں مخالفت کرتے تھے۔ انہوں نے باچا خان کی وفات پر ایک فکر انگیز اور تاریخی مرثیہ بھی لکھا ہے۔
ان کے فن اور شخصیت پر پروفیسر ڈاکٹر قابل خان آفریدی کا انگریزی زبان میں لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ “Hamza, Life and Works” حال ہی میں کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ حمزہ شینواری نے پشتو میں مکتوب نگاری کی صنف میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے۔
ان کی زندگی میں اور بعد از وفات بھی ان کے ہزاروں خطوط مختلف ناموں سے شائع ہوئے۔ ان کے بیشتر اشعار ضرب المثل کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ وہ انگریزی روزنامہ “خیبر میل” کے پشتو صحفے کے انچارج بھی رہے اور اس کے لیے روزانہ مختلف معاشرتی اور ادبی موضوعات پر “ژور فکرونہ” (گہری سوچیں) کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے۔
قارئین، پشتو زبان کے ارسطو اور جدید پشتو غزل کے بابا امیر حمزہ خان شینواری 87 سال کی عمر میں 18 فروری 1994ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کا یہ مشہور شعر پختونوں میں زبان زد عام ہے۔
وائی اغیار چہ د دوزخ ژبہ دہ
زہ بہ جنت تہ د پختو سرہ زم
ترجمہ، اغیار کہتے ہیں کہ دوزخ کی زبان ہے۔ مگر میں جنت میں پشتو کے ساتھ جاؤں گا۔
نمونے کے طور پر ان کی اردو غزلوں کے چند اشعار بھی پیش خدمت ہیں۔
ہر لحظہ کائنات پر یوں چھا رہا ہوں میں
جیسے کہ اپنے آپ کو اب پا رہا ہوں میں
کیا مرحلہ ہے عشق میں یہ کیا مقام ہے
آئے اکیلے آپ ہیں شرما رہا ہوں میں
حوادث کے تسلسل میں اتر کر
خود اپنے سامنے آتا رہا ہوں
تخیل میرا پختون ہے نظامی
کہ اب اردو کو بھی اپنا رہا ہوں
تری برہمی سے گلے میں جو اٹکی
وہ ہچکی مری مرض جاں ہو گئی ہے
ارے یا ستم ہے کہ بیداری دل
ملی بھی تو خواب گراں ہو گئی ہے
محبت میں یہ کیا نیا موڑ آیا
کہ اس کی نظر بے زباں ہوگئی ہے
حمزہ بابا کے چند پشتو اشعار کا اردو ترجمہ:
داغ دل، ناراض مت ہونا ، مجبوری ہے، خون کہاں سے لاؤں کہ آپ کا چراغ روشن کر سکوں۔
خبردار رہو ایشیا، آپ کی خیر نہیں اگر آپ کی جمعیت سے افغان قوم نکل گئی۔
دریائے سندھ اور دریائے کابل کے پانی پر پلنے اور جوان ہونے والے اس بات کا خیال رکھو کہیں کراچی کا پانی آپ کو بدل نہ ڈالے۔
بخدا تمہاری مہربانی بھی استحصال سے خالی نہیں، پر اے بہار، سمجھ لو کہ تمہاری نوابی اور سرداری کے دن بھی تھوڑے رہ گئے ہیں۔
شائد مسلسل خدائی سے ان کے دل بھر چکے ہیں اس لیے بتوں کے دل خانہ کعبہ میں تنگ ہو گئے۔
یہ جو ٹپک رہی ہے ، روشنی نہیں بل کہ چاند کے آنسو ہیں، لگتا ہے پھر کسی مزدور اور دہقان کا پسینہ تپتی ہوئی دھوپ میں نکل رہا ہے۔
ان سے انسانیت کی حرمت محال ہے جو اپنا دل تاج اور محل پر رکھتا ہے۔
آپ کے عاشق کا خون جب اتنا ارزاں ہے پھر میرے معشوق، مہنگائی کی باتیں مت کیا کریں۔
اے ارمان، دل کو ان کی یادوں کا جنازہ مت لے کر آؤ، لوگ مقبرے اپنے گھروں سے دور بناتے ہیں۔
ہستی کی زندگی کی نبضیں اس لیے جنگلی بن گئے کہ انسانیت کے سبز چمن پر استعمار نے قبضہ کر رکھا ہے۔
حمزہ اس دنیا میں مسلم اور غیر مسلم لا تعداد ہیں پر میں ان کا دوست ہوں جس میں انسانیت ہو۔
رقیب کی آنکھوں میں آج صلح اور آشتی کا پیغام اس لیے نظر آرہا ہے کیوں کہ کل اس نے ہماری آنکھوں کی لڑائی دیکھی ہے۔
میں نے انسان کے نفس سے جتنے بھی پردے اٹھائے ، جان چکا ہوں کہ ایک ہوس کے اندر دوسری ہوس چھپی ہوئی ہے۔
چاہے زمانہ آپ کو پرکار کی طرح گھمائے مگر اپنے اصولوں اور نظریات کے نقطے پر قائم رہو۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔