کہتے ہیں کہ زندگی سے حظ اور لطف اٹھانے کے لیے موزوں ترین شخص وہ ہے جس میں جذبے کی گرمی ہو، بے باک ہو اور جسے کسی چیز کا خوف نہ ہو اس کے علاوہ انسان کی پختہ خوبیاں تین بتائی جاتی ہیں، جن میں دانش، رحم دلی اور جرأت اظہار شامل ہے۔ اگر مذکورہ “موزوں ترین شخص” میں ان تین خوبیوں کے علاوہ اور بھی کئی خوبیاں شامل ہوجائیں، تو پھر اس شخص کو ہم صرف عام “موزوں ترین‘‘ شخص نہیں بلکہ اسے پھر نابغہ، مفکر، دانش ور اور فلسفی کا نام اور مقام دے سکتے ہیں۔
قارئین، پشتو زبان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر، ادیب، دانش ور، مصور، مجسمہ ساز، فلسفی اور سیاست داں غنی خان ایک ایسی شخصیت اور ہستی کا نام ہے جو بے شمار خوبیوں کے مالک تھے اور زندگی سے جس طرح انہوں نے حظ اور لطف اٹھایا ہے، اس سے ان کے جاننے، قریب رہنے اور پڑھنے والے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔
غنی خان کو پختونوں کی اکثریت “لیونے فلسفی” (دیوانہ فلسفی) رنگ و نُور کا شاعر، اور روشنی اور سائے کے شاعر کے نام سے جانتے، لکھتے اور پکارتے ہیں۔ غنی خان بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے اور ہر خوبی کو جہاں انہوں اپنی شاعری میں سمویا ہے وہاں مصوری اور مجسمہ سازی میں بھی کمال کر کے دکھایا ہے۔
خان عبدالغنی خان خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کے سب سے بڑے صاحب زادے تھے، جو 1915ء کو اتمان زئی چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے آزاد اسلامیہ سکول سے حاصل کی جس کی بنیاد ان کے والد باچا خان نے 1928ء میں رکھی تھی اور اپنے دونوں بیٹوں غنی خان اور خان عبدالولی خان کو بھی اسی سکول میں داخل کرایا تھا۔ سکول میں ہاسٹل بھی تھا جس کا ماہانہ فیس غنی خان تین روپے دیا کرتے تھے اور اس فیس میں ان کے جملہ اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ چوں کہ انہیں صبح صرف ایک پیالی چائے ملتی تھی، اس لیے غنی خان رات کو کھانا کھانے کے دوران روٹی کے چند ٹکڑے چھپا کر صبح چائے کے ساتھ کھا لیتے تھے۔ اس وقت ان کے سکول میں کرسیاں یا بینچ نہیں ہوا کرتے تھے اور طلباء چٹائی پر بیٹھ کر اسباق پڑھا کرتے تھے۔ شام کو جب وہ چٹائیاں اٹھاتے، تو اس کے نیچے بے شمار بچھو ملتے تھے۔
ان کے اسکول میں کوئی بیت الخلا بھی نہیں تھا اور طلباء رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جایا کرتے تھے۔ اس طرح کے ماحول اور سکول میں ملک کے مشہور اصلاح پسند، سماجی اور سیاسی شخصیت خان عبدالغفار خان کے صاحب زادوں غنی خان اور خان عبدالولی خان نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں غنی خان مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کے ہاں “برلا ہاؤس” میں بھی کئی سال تک رہ چکے تھے۔ غنی خان گاندھی جی کے کردار اور اخلاق سے بے حد متاثر رہے۔ اس وقت وہاں غنی خان ایک شوگر مل میں بطور انجنیئر کام کیا کرتے تھے اور شادی بھی وہاں حیدر آباد دکن کے ایک بہت بڑے نواب کی صاحب زادی روشن نامی لڑکی سے کی۔ جس سے غنی خان کا صرف ایک بیٹا فریدون پیدا ہوا تھا جو شادی کے چند سال بعد نوجوانی میں اپنے ایک کسان کے ہاتھوں حادثاتی موت چل بسا تھا۔ غنی خان گھڑ سواری کے علاوہ شکار کھیلنے کے بھی بہت شوقین تھے۔ شادی کے بعد جب ایک دن وہ ہرن کا شکار کرکے گھر لے آئے، تو ان کی اہلیہ روشن بیگم نے انہیں کہا کہ آپ جیسا حساس اور شاعر ادیب آدمی بھی ان معصوم جانوروں کو گولی سے مار سکتا ہے…؟ بیگم کی زبان سے یہ بات سن کر غنی خان نے اسی دن سے شکار کرنا چھوڑ دیا اور مرتے دم تک پھر کبھی شکار کا نام نہیں لیا۔
قارئین، ایک دن انہیں ایڈمرل سلاڈیس کی بیٹی جسے غنی خان “میرا بائی” کے نام سے پکارتے تھے اور وہ بھی گاندھی جی کے ہاں “برلا ہاؤس” میں رہتی تھی۔ غنی خان سے کہنے لگی کہ آج آپ بیت الخلاء کی صفائی کریں گے اور اگر انکار کیا، تو پھر آپ کو یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی جس کے جواب میں غنی خان نے کہا کہ میں ایک پختون کا بیٹا ہوں کسی بھنگی اور صفائی کرنے والے کی اولاد نہیں ہوں کہ آپ مجھ سے بیت الخلاء کی صفائی کروانا چاہتی ہو۔ غنی خان کے اس انکار کا جب گاندھی جی سے شکایت کی گئی، تو انہوں نے غنی خان سے کہا کہ کوئی بات نہیں آپ کی جگہ بیت الخلاء میں صاف کرلوں گا۔ چوں کہ اس مشترکہ بیت الخلاء کو ہر کوئی باری باری صاف کیا کر تے تھے۔ ایک ہفتہ مسلسل گاندھی جی نے بھی اپنی باری آنے پر صاف کیا تھا۔ غنی خان کی عمر اس وقت 22 سال تھی جب کہ اندرا گاندھی اس وقت چودہ سال کی تھی اور دونوں ٹیگور یونی ورسٹی میں پڑھتے تھے۔ دونوں کی ٹیوٹر بھی ایک نین لعل نامی خاتون تھی۔ غنی خان ہندوستان کے آرٹس سکول میں بھی پڑھ چکے تھے۔ ابتدا میں وہ مینڈکوں، مکھیوں اور کتوں کی تصویریں بنایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہاں شعبہ انگریزی میں صحافت کی کلاسیں بھی لیتے رہے۔
قارئین، غنی خان کے ہاتھوں کا بنا ہوا ایک مجسمہ ہندوستان کے شانتی ٹیکشن میں بھی رکھا گیا ہے۔ موصوف نے شاعری پندرہ سال کی عمر میں شروع کی تھی۔ غنی خان 1930 /1932 ء امریکا میں بھی رہے۔ اس کے علاوہ لندن، فرانس، چین، جرمنی، جاپان اور اٹلی بھی دیکھ چکے تھے۔ مگر اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں، “دنیا جہاں کی خوب صورتی اور حسن میری اپنی دھرتی اور اپنے خاکی چہرہ پختون کے سامنے ہیچ ہے۔” انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں بے شمار دفعہ گرفتار ہوکر دو، دو تین، تین سال تک ہری پور، ملتان، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، حیدرآباد اور پشاور کے جیلوں میں قیدبامشقت اور قیدتنہائی بھی گزارچکے تھے۔
خدائی خدمت گار تحریک کا مشہور ہفت روزہ ’’پختون‘‘ میں ’’گڈے وڈے‘‘ کے عنوان سے ’’لیونے فلسفی‘‘ (دیوانہ فلسفی) کے نام سے انگریزوں اور ان کے کاسہ لیس خوانین اور ملاؤں کے خلاف زوردار فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے۔ یہ بات بلا تردید کہی جاسکتی ہے کہ پشتو زبان میں خوش حال خان خٹک کے بعد غنی خان واحد شاعر ہیں جنہوں نے بڑی بے باکی، دانش اور جرأت اظہار سے کام لیتے ہوئے انسان، دنیا، مذاہب، خدا، شیخ، ملا، واعظ، جنت، دوزخ اور موت و حیات کے بارے میں نہ صرف نئے نئے سوالات اٹھائے بل کہ اپنے علم و ہنر سے کام لیتے ہوئے اپنے بہت سے اعتراضات کو بھی شاعرانہ زبان میں سوالات کے رنگ میں پیش کیا ہے۔
انہوں نے پشتو شاعری میں اپنے لیے ایک الگ راستہ، ایک منفرد رنگ، جداگانہ طرز اور ایک الگ روایت کی طرح ڈالی ہے۔ بحیثیت ایک کام یاب تجربہ کار انجنیئر انہوں نے حیات و کائنات کے ذرے ذرے کی ساخت، رنگ و نور، شکل اور تعمیر کو ایک انجنیئر کی آنکھ سے دیکھا پرکھا ہے اور ایک مفکر، شاعر، اور فلسفی کے دماغ سے سوچ کر اسے لفظوں اور رنگوں کی زبان میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو مشکل فلسفہ نہیں بل کہ مشکل فلسفے کو آسان شاعرانہ زبان اور انداز بخشا ہے۔
غنی خان نے اپنے مفکرانہ ذہن، شاعرانہ مزاج اور جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی قوم کو حیات و کائنات کے بارے میں نئے نئے عقلی اور سائنسی سوالات کی راہ پر چلنے کی ہمت اور زبان بخشی ہے اور اپنے پڑھنے والوں میں ایک تجسس اور بے قراری پیدا کرڈالی ہے۔ زندگی کیا ہے…؟ کائنات کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے…؟ اس دنیا کو کس نے پیدا کیا ہے…؟ موت کیا ہے…؟ اور پس مرگ انسان کی روح کہاں پرواز کر کے چلی جاتی ہے…؟ کعبہ کیا ہے…؟ نماز اور سجدے کی اصل حقیقت کیا ہے…؟ ہوس اور محبت میں کیا فرق ہے…؟
اس طرح کے اور بہت سے نئے سوالات غنی خان کی شاعری میں پڑھنے والے کے ذہن میں بیٹھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے شاعری کے مجموعوں کے نام ’’پلوشے‘‘،’’فانوس‘‘،’’دپنجرے چغار‘‘ جیسے بعد میں افغانستان کی حکومت نے تینوں مجموعوں کو ’’دغنی کلیات‘‘ کے نام سے شائع کیا بعد میں اس کلیات میں ان کی غیرمطبوعہ کلام کو شامل کرکے یونی ورسٹی بک ایجنسی پشاور نے ’’دغنی لٹون‘‘ (غنی کی تلاش) کے نام سے شائع کیا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ غنی خان نے پختونوں کی تاریخ پر انگریزی زبان میں بھی ’’دی پٹھان‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان کے علاوہ ملکی سطح پر بھی کئی ادبی اور سماجی تنظیموں نے ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا ہے۔
غنی خان نے تمام مذاہب عالم کا فلسفہ اور مختلف اقوام کی تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا، اسے پرکھا مگر ان ڈھیر سارے مطالعے اور مشاہدے کے بعد وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’میں نے بہت سے پیروں، فقیروں کو ٹٹولا بہت سے مذاہب کا بغور مطالعہ کیا لیکن کہیں بھی مجھے روشنی کا ایک قطرہ نہیں ملا۔ بس ایک قصہ در قصہ ہے جس کا کسی آغاز کا پتا چلتا ہے اور نہ ہی اختتام کا۔‘‘ ان کے خیال میں یہ ایک ایسی خاموشی ہے جو ازل سے ابد تک جاری ہے جیسا کہ وہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:
’’محبت جب خاموشی پر حاوی ہوجاتی ہے
تو وہ نغمہ بن جاتی ہے
جب نغمہ سرکش یا باغی ہو جاتا ہے
تو وہ شور کی شکل اختیار کر لیتا ہے
جب خیال اپنے آپ پر ایمان لے آتا ہے
تو وہ الفاظ بن جاتے ہیں
جب الفاظ سرمست ہوکر رقص کرنے لگتے ہیں تو وہ ساز میں بدل جاتے ہیں
اور جب ساز خوب صورت اور نازک خوابوں میں کھو جاتا ہے، تو خاموشی میں بدل جاتا ہے
اس لیے خاموشی ازل ہے اور خاموشی ابد بھی‘‘
اپنی ایک دوسری نظم میں مُلا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آؤ ساقیا آؤآؤ
پرے ہٹ پرے ہٹ مُلا!
مجھے آپ کی یہ پکی پکی باتیں بہت بری لگتی ہے
میں کوئی بچہ تھوڑا ہوں
کہ تمھاری دوزخ کے ڈر سے اپنی جنت چھوڑ دوں!
ایک اچھا محبوبانہ میخانہ دے دوں
اور اس کے عوض کھڈے اور کُھردری زمین لے لوں!‘‘
ایک اور نظم جو مُلا اور دیوانے (غنی خان) کے مابین مکالمہ پر مشتمل ہے اس میں کہتے ہیں:
’’دیوانہ: مکہ کیا چیز ہے؟
مُلا: یہ ایک عاشق کا گھر ہے
گھروندے بے شمار ہیں اور سب کا مراد خالق ہے
دیوانہ: ایمان کیا ہے؟
ملا: یہ ایک پکا گماں ہے اور محبوب کے وصال کی خاطر ایک خواب دیکھنا ہے
دیوانہ: حوُر کیا ہے؟
ملا: یہ ایک سفید تتلی ہے، شفق کی ایک لکیر ہے اور ہنسی مسکراہٹ کا بگولہ ہے
دیوانہ: نشہ کیا ہے؟
ملا: یہ سیر پر نکلنا ہے، مستی کے رنگین محل میں آنا اور جانا ہے
دیوانہ:نماز کیا ہے؟
ملا: مٹی کو چومنا ہے، محبوب کے کوچے میں جانا ہے اور امید کا ارمان میں بدلنا ہے
دیوانے: سجدہ کیا ہے؟
ملا: اپنے آپ کو مٹی کرنا، مست پھولوں کا ہار محبوب کے قدموں میں رکھنا ہے
دیوانہ: وصال کیا ہے؟
ملا: حسن میں ڈوبنا ہے۔ یہ ستاروں پر رقص اور چاند میں پھیلنا ہے‘‘
پیرانہ سالی کے باوجود غنی خان نے مرتے دم یعنی 15مارچ 1996ء تک جتنے شاعری، پینٹنگز، مصوری اور مجسمہ سازی کے نمونے تخلیق کیے۔
ان میں ایک چیز کو بنیادی اہمیت دی ہے اور وہ ہے حسن و محبت۔ غنی خان کے نزدیک حیات انسانی کی اس پوری کہانی کی ابتدا محبت سے ہوئی ہے تاکہ بہتر انسان وجود میں آئے۔ محبت جسے غنی خان قائم و دائم حقیقت کا نام دیتے ہیں اور حسن کو اس حقیقت کا سایہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں حسن کے لیے زوال ہے مگر محبت ایک لازوال حقیقت ہے اس کے علاوہ ان کی شاعری میں اپنے اردگرد ماحول کے تمام سیاسی، سماجی اور تہذیبی رنگ موجود ہیں۔ خصوصاً آزادی، قوم پرستی، انسان دوستی اور وطن پرستی ان کی شاعری کی روح ہے۔
غنی خان پشتو زبان کے حال سے زیادہ مستقبل کے شاعر ہیں اور کوئی بھی باشعور قوم اپنے مستقبل سے غافل نہیں رہ سکتی، پھر غنی خان تو صرف مٹی کا ڈھیر نہیں، جیسا کہ وہ خود اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں ’’اے مُلا! تم سنتے ہو یا نہیں۔ موت بھی یہ نعرے لگا رہی ہے کہ غنی خان صرف خاک کا ڈھیر نہیں پھر وہ کیسے خاک ہوجائے گا؟
غنی خان کی پیش گوئی جو سچ ثابت ہوئی
سن 1945ء میں متحدہ ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں غنی خان کی تقریر کے اس اقتباس کے 34 سال بعد 1979ء کو افغانستان میں سوویت یونین کی فوج کے داخل ہونے کو اگر ہم دیکھیں تو غنی خان کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کا اندازہ بڑی آسانی سے لگا سکتے ہیں۔
غنی خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا،’’جب ایک آدمی ایک ایسی جگہ رہائش پذیر ہو جہاں اردگرد چور اور ڈاکو ہوں تو پھر گھر کا اہم حصہ ڈرائنگ روم نہیں بل کہ گھر کی چار دیواری کے لیے مضبوط اور بلند دیواروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جو ناانصافی، حرص اور ہوس سے بھری ہوئی ہے اور بنی آدم کے خون کی پیاسی ہے۔ یہ دنیا لوٹ مار، مکاروں اور حاسدوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ایک ملک کا دارالخلافہ نہیں بل کہ اس کی سرحدات زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔
اگر ہم اپنے گھر اور ملک کی سرحدوں پر نظر دوڑائیں جس کے شمال کی طرف ایک پرانا زخمی اور تباہ شدہ ملک ہے چین کے ساتھ ہماری ہم دردی ہے اور میرا خیال بھی یہی ہے کہ ان حالات میں وہ اس قابل نہیں کہ ہماری دیواروں کو پھلانگ کر یا گرا کر ہمارے گھر داخل ہوجائے اور نہ ہی وہ ہم پر حملہ کر سکتا ہے۔
ہمیں قبلے کی طرف سے کچھ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ ہماری نظریں اپنی جانب کھینچے۔ وہاں ایک بے قابو بہادر اور جنونی قوم رہتی ہے جو کہ ایک بہت بڑی تکلیف کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ افغانستان کی سرحدات روس کے ساتھ پیوست ہیں۔
روس آج کل ایک طاقت ور اور خوش حال ملک ہے اور وہ توسیع پسند ہے، پھیلنا چاہتا ہے مگر اس عمل سے وہ آخر خود ہی پھٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا۔
اگر وہ اپنی توسیع پسندی کو اپنے تحفظ کا نام دیتا ہے تو میں اسٹالن کے اس طریقۂ تحفظ پر اعتراض اس لیے کرتا ہوں کہ اگر آج ان کا خیال ہے کہ آذربائیجان اور درۂ دانیال ان کے ملک کے دفاع کے لیے اہم ہیں تو پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل پھر وہ یہ کہے کہ لاہور اور بنگال بھی ان کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں؟‘‘
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔