لِٹل ڈریگن (Little Dragon) کے نام سے مشہور محمد محمود عالم (ایم ایم عالم) چھے جولائی 1935ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ان کی خاندان نے مصائب و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مشرقی پاکستان یعنی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) ہجرت کی۔
ایم ایم عالم پانچ بھائیوں اور چھ بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے تمام بہن بھائیوں کی شادی کر دی لیکن اپنی شادی کو کشمیر کی آزادی تک ملتوی کردیا۔ موصوف نے یکم اکتوبر 1952ء کو پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔تربیت مکمل کرنے کے بعد انہیں "پاکستان ائیر فورس کالج” (پی اے ایف کالج) رسال پور بھیج دیا گیا۔ جس کے بعد یعنی 1954ء میں انہوں نے فائٹر پائلٹ آفیسر (Fighter Pilot Officer) کے طور پر اپنے کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1963ء میں آپ "فائٹر لیڈر سکول” میں "ائیر گنر اینڈ ٹیکٹیکل انسٹرکٹر” (Air Gunner and Technical Instructor) کی طور پر تعینات ہوئے۔
قارئین، پاکستان ائیر فورس کے فضائی سر فروش ایم ایم عالم کو پاک فضائیہ میں لِٹل ڈریگن کے لقب سے بھی پُکارا جاتا ہے۔ اس لقب کے پسِ منظر میں ان کا وہ عظیم کارنامہ ہے جسے نہ صرف پاک فضائیہ بلکہ دنیا کی عسکری تاریخ میں بھی سنہرے الفاظ میں لکھا جاچکا ہے۔ 07 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جب بھارتی فضائیہ کے چھ ہنٹر طیارے سرگودھا ائیر بیس پر حملہ آور ہونے کی غرض سے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئے، تو سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم اپنے طیارے کے کاک پٹ میں تیار بیٹھے تھے۔ وائر لیس پر اطلاع ملتے ہی وہ فضا میں پہنچے اور جاتے ہی ایک بھارتی طیارے کو نشانہ بنایا۔ حسنِ اتفاق سے وہ فائر ٹھیک نشانے پر لگا اور بھارتی طیارہ قلا بازیاں کھاتا ہوا زمین کی جانب بڑھنے لگا۔ یہ دیکھ کر باقی بھارتی طیارے بد حواسی کا شکار ہوکر ایک ہی سمت میں واپس بھاگ رہے تھے۔ ایم ایم عالم ان کی تعاقب کرتے ہوئے صرف 30 سیکنڈ میں یکے بعد دیگرے مزید چار جہاز بھی مار گرائے۔ اس طرح صرف ایک منٹ میں پانچ طیارے گرانے کا عالمی ریکارڈ ان کے حصے میں آیا۔ جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔
قارئین، 1965ء کی جنگ میں انہوں نے مجموعی طور پر گیارہ بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔ اس عظیم کارنامے کی بدولت انہیں "لِٹل ڈریگن ایوارڈ” کے ساتھ ساتھ ستارۂ جرات سے بھی نوازا گیا۔
ایم ایم عالم 1982ء میں پاکستان ائیر فورس سے ائیر کموڈور کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ وہ افغانستان میں ایک مجاہد کے روپ میں سابق سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکار بھی رہے۔ وادئ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں بھی اپنے طور پر حصہ لیا۔ 1973ء میں ایم ایم عالم دیگر پاکستانی پائلٹوں کے ہم راہ شامی فضائیہ کے پائلٹوں کو تربیت دینے کےلیے شام بھی گئے۔
ایم ایم عالم نوکری سے سبک دوشی کے بعد گوشہ نشینی میں چلے گئے۔ کتابیں پڑھنا ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا وہ تقریبات اور نمود و نمائش سے ہمیشہ دور رہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی کے کانووکیشن میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف مدعو تھے۔ یونی ورسٹی کے ہال میں پندرہ ہزار سے زائد طلبہ و طالبات موجود تھے۔ نواز شریف نے طلبہ سے سوال کیا کہ کیا آپ ایم ایم عالم جانتے ہیں…؟ تو طلبہ اور طالبات کی لاعلمی پر نواز شریف کو حیرت ہوئی۔ کیوں کہ ہال میں موجود ہزاروں طلبہ میں سے کوئی ایک طالب علم بھی جواب نہ دے سکا۔ سب نے یہی کہا کہ ہمیں ایم ایم عالم روڈ کا تو پتا ہے لیکن ان کے بارے میں نہیں جانتے۔ جب یہ بات کسی صحافی کے حوالے سے ایم ایم عالم تک پہنچی، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا میں پاکستانی قوم کا ہیرو کہاں ہوں، ہیرو تو وہ سیاست دان ہیں جو سات ارب کا پلازہ 36 کروڑ میں خرید لیتے ہیں اور کروڑوں روپے کے قرضے معاف کروا لیتے ہیں۔ ہیرو تو وہ کرکٹرز ہیں جو نوٹوں کی جھلک دیکھ کر قومی مفادات کو قربان کرکے قوم کے دامن پر شکست کا بدنما داغ سجا دیتے ہیں۔
قارئین، جن دنوں وہ بیمار تھے، انہیں ملنے کے لیے دو افراد آئے جن میں سے ایک صحافی تھا۔ جب ائیر کموڈور جمال نے صحافی کا تعارف ان سے کروایا، تو ایم ایم عالم کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمودار ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں مجھے پتا ہے کہ ایک بار پھر ستمبر آگیا ہے۔ اب سب کو ایم ایم عالم کی یاد آئے گی اور ہاٹ کیک کی طرح میری قیمت لگے گی۔ کل پاکستان ٹیلی ویژ (پی ٹی وی) کی جانب سے مجھے انٹرویو کے لیے کال بھی موصول ہوئی تھی، میں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں جو کچھ کہوں گا کیا وہ آپ آن ائیر کریں گے…؟ وہ پاکستان کو عالم اسلام میں ایک لیڈر ملک کی حیثیت سے دیکھنے کے متمنی تھے لیکن پاکستانی سیاست دانوں اور حکم رانوں سے سخت نالاں تھے۔
قارئین، دنیا بھر میں پاکستان کانام روشن کرنے والا یہ عظیم ہیرو گُم نامی کی حالت میں 18 مارچ 2013ء کو 78 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔