چار دسمبر 1953ء کو مشرقی پاکستان یعنی (موجودہ بنگلہ دیش) میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے انتخابی اتحاد کا اعلان ہوا، جسے “جگتو فرنٹ” کا نام دیا گیا۔ یہ اتحاد چار سیاسی جماعتوں یعنی عوامی لیگ، کرشک سرامک پارٹی، گن تنتری دل اور نظامِ اسلام پارٹی پر مشتمل تھا۔
مذکورہ اتحاد بنیادی طور پر مارچ 1954ء کو ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کو ہرانے کےلیے بنایا گیا تھا۔ اس فرنٹ نے 1954ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں شرکت کے لیے 21 نکاتی منشور کا اعلان کیا۔ یہ منشور عوام کی خواہشات اور جذبات کا ترجمان تھا۔ اس میں مکمل صوبائی خود مختاری، امتناعی نظر بندی کے قوانین کا مکمل خاتمہ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، عدلیہ کی انتظامیہ سے علاحدگی، بنیادی حقوق کے تحفظ، اُردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے اور اسی نوع کے دیگر مطالبات شامل تھے۔ اس منشور کی وجہ سے “جگتو فرنٹ” دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان (بنگال) کا مقبول ترین سیاسی اتحاد بن گیا۔
آخر کار الیکشن کا دن آیا اور 8 مارچ 1954ء کو پولنگ ہوئی۔ “جگتو فرنٹ” نے 323 میں سے 309 نشستوں پر کام یابی حاصل کی جب کہ مسلم لیگ کے حصے میں محض 09 نشستیں آئیں۔ اس عبرت ناک شکست کی وجہ سے مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کا درجہ حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو گئی تھی کیوں کہ یہ درجہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت پر کم از کم 10 نشستیں حاصل کرنا لازم تھے۔ بالآخر مسلم لیگ نے ایک آزاد رکن فضل القادر چودھری کی حمایت حاصل کی اور پارلیمانی پارٹی کا درجہ پانے میں کام یاب ہوئی۔
قارئین، انتخابات کے بعد “سرامک کرشک پارٹی” کے قاید مولوی فضل حق نے مشرقی بنگال کے وزیرِ اعلا کا حلف اُٹھایا۔ ان کی کابینہ تین وزرا پر مشتمل تھی جس کی قسمت میں محض 2 ماہ کی حکم رانی لکھی تھی۔ کیوں کہ وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت نے 30 مئی 1954ء کو مولوی فضل حق پر غداری کا الزام لگاتے ہوئے ان کی نو منتخب اسمبلی کو توڑ کر گورنر راج قایم کر دیا۔