پشتو زبان کے درجنوں گانے لکھنے والے معروف شاعر اور ادیب حکومتی غفلت کے باعث کسمپرسی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ موصوف کا تعلق وادئ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے ہیں۔ وہ وادی میں شورش سے پہلے اچھی زندگی جی رہے تھے، لیکن شورش کے دوران ان کی دکان کو بم سے اُڑایا گیا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھر اور گاڑی کو بیچ کر معمولاتِ زندگی کو رواں رکھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ بھی ختم ہوا اور سیکڑوں گانوں سے پشتو زبان و ادب کے گلستان کی آبیاری کرنے والے گوہرِ نایاب آج کل مینگورہ بازار میں سبزی بیچنے پر مجبور ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا، تو انہوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے جواب دیا کہ مختلف موسیقاروں نے میرے سیکڑوں گانے گا کر اپنے لیے کروڑوں روپے تو کمائیں لیکن آج تک کسی نے میرے حالتِ زندگی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ انہوں نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا کہ مختلف ادبی تنظیموں نے امداد کے نام پر فوٹو سیشن تو کرائی، مگر کوئی امداد فراہم نہیں کی۔ کیا کوئی قوم اپنے ادبی سرمایہ کے ساتھ ایسا کرتی ہے…؟
قارئین، عثمان خیالی نے مختلف موضوعات پر شاعری کی۔ جس پر وقتاً فوقتاً پشتو زبان کے معروف موسیقاروں یعنی نازیہ اقبال، غزالہ جاوید، گل پانڑہ، حشمت سحر سمیت دیگر لوگوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔
شیئرکریں: