گذشتہ ہفتے جیو نیوز کے پروگرام “رپورٹ کارڈ” میں سینئر صحافی سلیم صافی کَہ رہے تھے کہ آئینِ پاکستان میں ترمیم کرکے ملک کا نام “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے بجائے “اسلامی جمہوریہ پنجاب” رکھا جائے۔ کیوں کہ یہاں صوبہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔
آپ پاکستان کے کسی بھی چینل کو اٹھا کر دیکھ لے، تو آپ کو صرف دو موضوعات پر گفتگو سننے کو ملی گی۔ ایک پنجاب میں الیکشن اور دوسرا عمران خان! سارے کا سارا میڈیا ان دو موضوعات کے گرد گھومتا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک اور قانون کے مطابق چل رہا ہے اور لوگوں کی زندگی پرسکون ہے۔ لیکن اگر مسائل ہے، تو وہ مذکورہ بالا دونوں موضوعات ہی میں ہیں۔
قارئین، اگر دیکھا جائے، تو پچھلے دنوں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور صاحب ایک ٹریفک حادثے میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، لیکن میڈیا نے اس اندوہناک واقعے کو اس طرح کوریج نہیں دی، جس طرح دینا چاہیے تھا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ایکسیڈنٹ کے وجوہات کیا تھے…؟ کیا یہ حقیقت میں بھی ایک حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کسی ان دیکھی قوتوں کا ہاتھ تھا…؟ کیوں کہ رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر نے اسمبلی فلور پر کہا کہ موت سے تین دن پہلے مفتی صاحب نے ان کو کہا تھا کہ مجھے تریٹس ملے ہیں۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا، لیکن اب ہمارے میڈیا والے اتنا بھی نہیں کرسکتے کہ مفتی صاحب کے گھر جاکر ان کے کچے مکان، اکلوتے بیٹے، بوڑھے باپ اور سادہ لوح زندگی دنیا کو دکھایا جائے۔ یہ بھی دکھا دیاجائے کہ ایک شخص پاکستان جیسے ملک میں وزیر ہونے کے باوجود کتنی سادہ اول ملن ساری کی زندگی جی رہے تھے، تاکہ بہت سے بے حِس لوگوں کو پتا چلے کہ کچھ لوگ سیاست کو کاروبار بنا کر اس سے پیسا کماتا ہے۔ جب کہ مفتی صاحب جیسے لوگ سیاست کو عبادت سمجھ کر خدمت خلق کرکے اپنے لیے ایک الگ مقام بنا کر چلے جاتے ہیں۔
صحافی ارشد شریف جب وفات پائے، تو ہر مکتبہ فکر کے لوگ ان کے خاندان والوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ حتیٰ کہ مراد سعید اور علی محمد خان سمیت دیگر سیاست دان ان کے گھر میں تعزیت کےلیے آئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے اس سپریم کورٹ نے بھی ان کی موت پر سوموٹو ایکشن لیا، جہاں اب بھی 51 ہزار سے زاید کیسز التوا میں پڑے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اب مفتی عبدالشکور صاحب کے اکلوتے بیٹے کو تسلی دینے کےلیے ان کے کچے مکان میں جانے کو پسند فرمائیں گے، اس چھوٹے بچے کی تعلیم کا بندوبست کریں گے، مفتی صاحب کے بزرگ باپ سے اظہار تعزیت کریں گے…؟ اس سے بڑھ کر یہ لوگ ان کی گھریلوں اخراجات کےلیے کوئی معقول انتظام کریں گے جس کے بارے میں مفتی صاحب نے خود ہی کہا تھا کہ وزارت کے ماہانہ تنخواہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے کے بغیر میرا گزارا ممکن نہیں۔
اسی طرح گذشتہ دنوں پاک افغان بارڈر کے قریب تورخم میں لینڈ سلائیڈنگ سے تقریباً 30 کے قریب گاڑی ملبے تلے دب گئے جس میں کل رات تک تین لاشیں اور سات زخمیوں کو نکالا گیا تھا۔ لیکن ہمارے میڈیا نے دو تین ٹکرز چلا دئیے اور بس ذمے داری پوری۔
قارئین، میڈیا کا کام کسی واقعے کو کوریج دینا اور اس کی وجوہات معلوم کرنا ہوتا ہے کہ واقعہ کیسے رونما ہوا، اس کے پیچھے کون سے محرکات تھے اور وہاں پر موجود اعلا حکام نے اپنی ذمے داریاں ایمان داری سے نبھائیں یا نہیں…؟
تیسری بات گوادر بلوچستان میں “حق دو تحریک” کے بانی اور جماعتی اسلامی کے مرکزی رہ نما مولانا ہدایت الرحمان تقریباً تین چار مہینوں سے جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن مملکتِ خداداد میں ان کی غیر آئینی اور غیر قانونی گرفتاری کےلیے کوئی بھی آواز اٹھانے کےلیے تیار نہیں۔ کیوں کہ ان کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہیں اور انہوں نے ریاستی رویے اور محرومیوں کے خلاف اعلانِ بغاوت کر رکھا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ کوئی بھی عدالت ان کو ضمانت نہیں دیتا، جس کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ میرا درخواستِ ضمانت مسلسل اس لیے مسترد  کیا جاتا ہے کہ میں اس ملک کا عام شہری ہوں اور میرا تعلق بلوچستان سے ہیں۔ اگر اس کے بجائے میں کوئی نیازی، گنڈا پور، چودھری، نواب یا سردار ہوتا، تو کب رہا ہوتا۔
قارئین، پاکستانی میڈیا ہمیں یہ تو بتاتا ہے کہ فلاں ایکٹر یا ایکٹریس نے آج اس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بتانے سے قاصر ہے کہ بلوچستان میں سیکڑوں خواتین بچوں سمیت لاپتا افراد کےلیے گذشتہ کئی برسوں سے احتجاج کررہی ہیں۔
لہٰذا میڈیا مالکان اور اس میں بیٹھے صحافیوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ سیاسی شخصیات کے بجائے ملکی مسایل اور عوام کی بات کریں، تاکہ عام لوگوں کی آواز اربابِ اختیار تک پہنچ جائے۔
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: