ملکی اداروں اور حکومت کی جانب سے ایک بار پھر صوبہ خیبر پختون خوا میں آپریشن کی منظوری دی گئی ہے، جس سے پختون خوا کے عوام میں خوف و ہراس، بے چینی اور غم و غصے کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ یہ صورتِ حال مقتدر حلقوں اور عوام دونوں کےلیے اچھی نہیں ہے۔
قارئین، مقتدر حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان میں ایک بار پھر تیزی سے دہشت گردی پھیل رہی ہے۔ میرے خیال سے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کیوں کہ ٹارگٹ کلنگ، بم بلاسٹ اور اغوا برائے تاوان جیسے واقعات کا وقوع ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ واقعی ملکی حالات ساز گار نہیں۔ لیکن اگر ان تمام تر صورتِ حال کا بغور جایزہ لیا جائے، تو یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حالات اس نہج پر بھی نہیں کہ حکومتِ وقت کے کنٹرول سے باہر ہو۔
قارئین، ان تمام تر صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے راقم کے ذہن میں ڈھیر سارے سوالات نے جنم لیا ہے، جو کچھ یوں ہے؛
حالات اچانک اس نہج پر کیسے پہنچیں کہ اتنی تیزی سے نا خوش گوار واقعات رو نما ہو رہے ہیں…؟ اگر پاک افغان بارڈر پر باڑ لگا ہوا ہے، تو پھر دہشت گرد تنظیمیں پاکستانی حدود میں داخل کیسے ہوگئے…؟ عمران خان کی حکومت میں ان کے ساتھ جو مذاکرات ہورہے تھے، جس کی رو سے کچھ سرکردہ رہ نماؤں کی رہائی بھی ہوئی، وہ کیوں کام یاب نہ ہوسکی…؟ اس مذکرات میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا…؟ گذشتہ ادوار میں ہونے والی جنگوں میں لوگوں کو جو مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑا، کیا ان کا ازالہ اسی طرح ہوا ہے جس طرح ہونا چاہیے تھا…؟ آپریشن “ضربِ عضب” اور “رد الفساد” کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی…؟
قارئین، اس کے باوجود کیا خیبر پختون خوا کے عوام کسی کو یہ اجازت دیں گے کہ یہاں پر ایک اور آپریشن کی شروعات ہو…؟ مَیرے خیال سے لوگ کسی بھی حال میں اس نئی آزمایش کےلیے تیار نہیں ہوں گے۔ کیوں کہ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ لوگ اس بار مضبوط مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے۔ مزاحمت کیوں نہ کریں جو گھر پہلے تباہ ہوچکے ہیں، جو مائیں اپنے کھوئے ہوئے بچوں کےلیے ابھی تک روتی ہے، وہ کیسے ایک بار پھر اپنے پیاروں کو قربان کریں…؟ وہ بہنیں جنہوں نے اپنے بھائیوں کو گذشتہ جنگ میں کھویا، وہ خود کو تو قربان کرے گی لیکن بھائیوں کو نہیں۔ ان لوگوں نے بہت کچھ اپنے دل پر سہتے ہوئے اسے برداشت کیا ہے، لیکن اب عوام بیدار ہوچکے ہیں، مسئلے کو سمجھ چکے ہیں اور اپنے دوست اور دشمن کا تمیز کرسکتے ہیں۔ اس لیے اب ایک نئی گیم کو کھیلنا اتنا آسان نہ ہوگا، جو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔
اسی لیے مَیں اس ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی وساطت سے حکومتِ وقت کے سامنے کچھ گذارشات رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک بیماری کو ختم کرنے کےلیے ڈاکٹر پہلے اس کی تشخیص کرکے اس کی وجوہات معلوم کرتے ہیں کہ یہ بیماری کب اور کیسے شروع ہوئی۔ ڈاکٹر جب ایک نتیجے پر پہنچ کر اس کا علاج شروع کردیتا ہے۔ لہٰذا حکومت بھی اسی طرح پہلے اس بات پر غور کریں کہ یہ حالات کیوں اور کیسے بنیں، کون ہے جو ان لوگوں کو سپورٹ کر رہا ہے، اندرون و بیرون ملک کون سی تنظیمیں ہیں، جو اس گیم میں ملوث ہے اور اس کے پیچھے سیاسی، سماجی اور اقتصادی محرکات کیا ہیں…؟
قارئین، اگر ہم ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے میں کام یاب ہوئے، تو شاید پھر اس کی کوئی مثبت نتایج برآمد ہوں۔ سنیٹر مشتاق احمد خان صاحب کے بقول، دہشت گردی کے خلاف اب تک 12 آپریشنز اور 09 معاہدے ہوچکے ہیں، لیکن باوجود اس کے حالات ابھی تک تسلی بخش نہیں ہے۔
آزادی سے لے کر آج تک ہم کئی جنگیں لڑچکے ہیں۔ اب مقتدر حلقے اور حکومت کو چاہیے کہ بے روزگاری، غربت، افلاس، بے شعوری اور جاہلیت کے خلاف بھی جنگ لڑے، تاکہ مملکتِ خداداد پاکستان کے حالات اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو۔ اس کے علاوہ حکومت خیبر پختون خوا محروم علاقوں کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کےلیے عملی اقدامات اُٹھائیں۔ عوام کو سکول، کالج، ہسپتال، یونی ورسٹی، سڑک، انٹرنیٹ اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائے۔ جب عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو، تو پھر عوام خود ہی ان دہشت گردوں سے نمٹیں گے۔
_________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔