ملگری وکیلان کے مرکزی رہ نما اور سینئر وکیل جابر خان ایڈوکیٹ نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دایر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو پولیس کی حراست میں ملزم کی انٹرویو کرنے سے روکا جائے۔ کیوں کہ عدالتی فیصلے سے قبل سوشل میڈیا کے ذریعے ملزم کو عوام کی نظروں میں مجرم ثابت کرنا عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار پشاور ہائی کورٹ کے وکیل جابر خان نے یہ رٹ پٹیشن آئینی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر دایر کی تھی۔ جس میں انہوں نے الیکٹرانک میڈیا، واچ ڈاگ، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، چیف سیکرٹری خیبر پختون خوا، انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختون خوا اور سیکرٹری اطلاعات خیبر پختون خوا کو فریق بنایا ہے۔ جابر خان نے اپنی رٹ پٹیشن میں موقف اختیار کیا تھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 03 ملزمان کو ہر قسم کے استحصال سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے جب کہ آرٹیکل 04 ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنے کا کہتا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل (A) 10 بھی منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 13 بھی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی ملزم کو اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ جب کہ کچھ صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ انٹرویو کے دوران میں ملزم کو اپنا جرم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جابر خان ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم آزادیِ اظہار کے بالکل خلاف نہیں، لیکن یہ آئین اور قانون کے نفاذ کا معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 19 کے تحت کسی کی عزت اور حوصلے کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ لیکن اس قسم کے انٹرویوز سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انٹر ویور ملزم سے نہیں بلکہ مجرم سے بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پیمرا کو ملزمان کے انٹرویو پر پابندی لگانے کا کہا جائے، وفاقی اور صوبائی عدالتیں ایسے انٹرویو نشر کرنے پر کارروائی کریں، میڈیا کو کسی بھی قسم کے ملزم یا مجرم تک رسائی نہ دی جائے، جب کہ ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد پولیس کی حراست میں کسی بھی ملزم کی انٹرویو لینے پر پابندی لگا دی۔
مین سٹریم میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں نے رٹ پٹیشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اکثر صحافتی اصولوں، سماجی حساسیت اور ملزمان کے حقوق سے ناواقف رہتے ہیں، جس کا پیشہ ور صحافیوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ خیبر پختون خوا کے سینئر صحافی اور خیبر نیوز ٹی وی کے اینکر شمس مومند نے عدالتی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کی حراست میں انٹرویو کرنا تفتیش اور عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ جب تک عدالت فیصلہ نہیں دیتی، یہ ملزم کو پہلے ہی عوام کی نظروں میں مجرم بنا دیتا ہے جو خود ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ لیکن میرے خیال میں انٹرویو کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو شاید یہ معلوم نہیں کیوں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح کے انٹرویو کا عام معاشرے پر اور عدالت کی طرف سے ملزمان کی بریت کے بعد ان کی زندگیوں پر کیا اثر پڑے گا؟
آزادیِ اظہار کے متاثر ہونے کے سوال پر موصوف نے کہا کہ اگر یہ آزادی اظہار کی بات ہے، تو عدالتوں کے اندر کیمرے لگائے جائیں اور ساری کارروائی براہِ راست ٹیلی کاسٹ کی جائے لیکن آزادیِ اظہار اور تحریر کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے گلہ کیا کہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ پیشہ ور صحافیوں کے لیے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے چند ادارے انہیں ایسی جگہوں تک رسائی دیتے ہیں، جہاں صحافیوں کی رسائی ممکن نہیں۔
فیس بُک اور یوٹیوب پر لاکھوں فالوورز رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ یوسف جان اتمان زئی نے بھی فیصلے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا انتہائی مغرور ہے، چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے۔ لیکن اس فلیٹ فارم کو استعمال کرنے والے کسی بھی انٹر ویور پر کسی بھی طرح سے پابندی عائد کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ انہوں نے تجویز دی کہ تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر اس کےلیے قواعد طے کریں اور ان پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں۔ یوسف جان نے بتایا کہ میں نے حال ہی میں، مَیں نے ایک پولیس سٹیشن میں اس بچے کا انٹرویو کیا جس نے اپنے والدین کو قتل کیا۔ ہم نے پیغام دیا تھا کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان مسائل کو اُجاگر نہیں کیا جائے گا، تو یہ کیسے حل ہوں گے۔ یوسف جان نے اصرار کیا کہ وہ کئی سالوں تک ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں صحافی کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اسی لیے ایک ملزم کا انٹرویو کرتے ہوئے وہ صحافت کے اصول کی پیروی کرتا ہے، اس کے حقوق کا یکساں خیال رکھتا ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ انٹرویو سے تفتیشی عمل متاثر نہ ہو۔