جیسا کہ پہلی نشست میں ہم نے یہ ذکر کیا کہ گورنر راج کی قانونی حیثیت آئینِ پاکستان کے دسویں باب میں موجود ہے۔ اس باب کی آرٹیکل نمبر 236 کے تحت مذکورہ باب میں موجود کسی بھی آرٹیکل یا شق کو ملک کے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اب تک لگنے والی تقریباً تمام ہی ایمر جنسیز اور گورنر راج کو ملک کے مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
اس بارے میں سینئیر قانون دان عرفان قادر کا کہنا ہے کہ اس باب کے تحت کسی حکم نامے پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ تاہم کوئی بھی شخص عدالت میں اُس وقت رٹ دائر کر سکتا ہے جب آئین میں موجود دیگر شقوں کی خلاف ورزی ہو یا اس کے بنیادی حقوق سلب کیے جائیں۔
اس کے علاوہ گورنر راج لگنے کی صورت میں متعلقہ صوبائی حکومت کے پاس یہ اختیار موجود ہوتا ہے کہ وہ صدر کے فیصلے، چاہے اس کی توثیق پارلیمان نے کردی ہو، کو عدالت میں چیلنج کر دیں۔ کیوں کہ صدر کے پاس ایمرجنسی یا گورنر راج نافذ کرنے کے اختیارات نہایت محدود ہیں اور انہیں ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یا عدالت میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ صوبے میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ انہیں یہ انتہائی اقدام کرنا پڑا۔
عرفان قادر نے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کے دوران پنجاب میں نافذ ہونے والے گورنر راج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُس وقت صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے گورنر راج لگاتے ہوئے صوبائی گورنر سلمان تاثیر کو تمام اختیارات سونپے تھے۔ مگر یہ حکم چند دن ہی چل پایا اور عدالت میں یہ فیصلہ چیلنج ہوا جس کی وجہ سے حکومت کو اپنا حکم نامہ واپس لینا پڑا۔
شیئرکریں: