ایک طرف اگر دنیا ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور جدید سائنسی ایجادات سے زندگی کو آسان بنارہی ہے۔ کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی جدید ترین ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرچکی ہے۔ آج افریقہ کے بعض شہروں میں خواتین موبائل فون کے ذریعے بازاروں میں اشیاء کی قیمتیں معلوم کررہی ہیں۔ جاپان چاند اور مریخ تک بلٹ ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کا منصوبہ بندی کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں طلبہ انٹرنیٹ پر سائنسی مضامین پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ تو وہاں دوسری طرف وطنِ عزیز کے سیکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں ہزاروں لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں اور ان کی مسائل کی نہ ختم ہونے والی ایک ایک داستان آپ کو دیکھنے کو ملے گی۔
ان بدقسمت علاقوں میں ایک عشریت نامی تاریخی گاؤں بھی ہے جو وادئ چترال میں واقع ہے۔ یہ گاؤں لواری ٹنل کے ٹاپ سے شروع ہوکر مرکانی تک پھیلا ہوا ہے۔ مذکورہ وادی کو چترال کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے دس ہزار سے زاید نفوس پر مشتمل آبادی اب بھی گویا بے ساکھیوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیوں کہ یہ علاقہ پاکستان بننے کے بعد اب تک نہ صرف بنیادی سہولیاتِ زندگی سے محروم رہا ہے، بلکہ یہاں کے مکین اس دورِ جدید میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں اگر دیکھا جائے، تو عشریت کے باسیوں کو تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں دیگر سہولیات تو دور کی بات، بجلی تک مہیا نہیں۔ باوجود اس کے کہ چترال بجلی کی پیداوار میں خود کفیل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں موجود چھوٹے بڑے بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی عشریت گاؤں کے عقب سے گزرتی ہوئی نیشنل گرِڈ اور ملک کے دیگر علاقوں تک جاتی ہے۔ رمضان المبارک ہو یا عیدالفطر، عید قربان ہو یا 12 ربیع الاول، محرم الحرام ہو یا دوسری کوئی مذہبی تہوار، عشریت کو بجلی نہیں ملتی۔ کیوں کہ ریاست نے عشریت کو تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنے کی ٹھان لی ہے۔
بجلی کی طرح عشریت کے لوگوں کو سوئی گیس کی سہولت بھی میسر نہیں جس کی وجہ سے وہاں کے 100 فی صد خواتین گھروں میں لکڑیوں پر آگ روشن کرکے کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔ لکڑیوں کے ذریعے کھانا پکانا کس قدر مشکل اور کٹھن کام ہے، یہ ان سے کوئی پوچھے جن کا اس سے واسطہ ہو۔ گاؤں کی خواتین گرمی اور سردی میں لکڑیوں پر کھانا پکاتے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے سانس سمیت مختلف النوع بیماریوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کو معیاری تعلیم میسر نہیں۔ غریب بچے سکول جانے کے بجائے کھیتوں یا دیگر چھوٹے موٹے کاموں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم تو دور کی بات صحت کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔ علاج معالجے اور ادویات تک نہیں ملتیں۔ غریب جب بیمار ہوتا ہے، تو وہ نجی ہسپتالوں میں جانے کی سکت نہیں رکھتا اور سرکاری ہسپتالوں میں انہیں علاج نہیں ملتا، جس کی وجہ سے وہ موت کے منھ میں چلا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے، تو یہی لوگ گندم، چاول، جو، سبزیاں کاشت کرتے ہیں اور فروٹ اگاتے ہیں۔ اتنا مشقت والا کام کرنے کے باوجود انہیں وہ اجرت ملتی ہے اور نہ ہی وہ سہولیات، جس کے یہ آئینی اور قانونی طور پر حق دار ہیں۔
قارئین، ملک کے دیگر شہروں میں جب کبھی کبھار بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے یا گیس پریشر کم ہوجاتا ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو۔ مگر یہ بنیادی سہولیات اگر سال بھر کسی گاؤں میں نہ ہوں، تو وہاں کے باسیوں پر کیا گزرتا ہوگا۔
یہاں رہایش کےلیے کچی مکانات اور گھومنے پھرنے کےلیے راستے بھی کچے یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کچے راستوں پر جب بارش ہوتی ہے، تو پھر ان پر چلنا محال ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے دیہات شہروں کے بجائے کافی صاف اور ستھرے ہوتے ہیں۔ قدرتی ماحول اور صاف و شفاف آب و ہوا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی فارم ہاؤس ہوں، لیکن جب بنیادی سہولیات کا فقدان ہوں، تو ایسے گاؤں کا کیا کیا جائے! کیوں کہ بندہ ایک دن یا رات تو مشکل سے گزار سکتا ہے لیکن ساری زندگی نہیں۔
عوام کو اگر بنیادی سہولیات جوکہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے، نہ دیا جائے، تو پھر لوگ بغاوت پر ہی اُترتے ہیں۔ اگر مذکورہ سہولیات عشریت گاؤں کو فراہم کیے جائیں، تو یقیناً یہ گاؤں دنیا کی نرالی گاؤں بن جائے گا۔
اگرچہ الیکشن کے وقت عوامی نمایندے عشریت کے باسیوں کے ساتھ متعدد بار بجلی دلانے اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی تحفظ یقینی بنانے کا وعدہ کرچکے ہیں، مگر آج تک کوئی بھی سیاسی عہدے دار میں یہ اخلاقی جرات تک نہ ہوسکی کہ وہ اپنا وعدہ وفا کرسکے۔
قارئین، ہمارے ایک نوجواں دوست انتخاب عالم جو اکثر سوشل میڈیا سمیت دیگر فورم پر جنت نظیر وادئ چترال کے مسائل کے حل کےلیے آواز اٹھاتے ہیں، نے راقم کو شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ “اس دور میں جہاں دنیا کے دیگر ممالک میں لوگ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے چاند پر زندگی گزارنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہاں ہم عشریت والے بجلی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی دستیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہاں کے بااثر لوگ ہم سے ووٹ تو لیتے ہیں، مگر مسایل حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی دورِ حکومت میں محض اپنے مفادات کے حصول میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ عوام چاہے تباہ ہوجائیں، ان کو کیا فرق پڑتا ہے؟
21 ویں صدی میں جہاں دنیا جہاں میں ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی باتیں ہورہی ہیں، وہاں چترال کے عشریت نامی گاؤں میں گرلز کےلیے علاحدہ کالج تو دور کی بات، ایک سیکنڈری سکول تک موجود نہیں۔”
انتخاب عالم ایک سنجیدہ اور تعلیم یافتہ نوجواں ہے لیکن وہ بھی اپنی گاؤں کی حالتِ زار پر دل برداشتہ اور حکومتی رویے سے مایوس ہوچکا ہے۔ تبھی تو کہتا ہے کہ ریاست “اپنا کام بنتا، بھاڑ میں جائے جنتا” کے مصداق عشریت کے عوام کے ساتھ زیادتیاں بند کرے۔ الیکشن کے وقت عوام کو جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کے ذریعے بے وقوف بناکر ووٹ لینے والی بااثر شخصیات بھی یہ جان لیں کہ ہمیں بجلی اور دیگر ضروری سہولیات کی فراہمی کےلیے عملی اقدامات کریں۔ کیوں کہ اب ہم مزید ان لوگوں کے بہکاوے میں آنے والے نہیں اور اپنے حقوق کے حصول کےلیے یکجا ہوکر ان سے اپنی حقوق لے کر ہی دم لیں گے۔
اپنے مسایل کے حل کےلیے عشریت کے بوڑھے، نوجواں، بچے اور بچیاں سب کے سب گذشتہ کئی دنوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ جب فیس بُک پر ان کی پلے کارڈز نظر سے گزرے، تو ان پر کچھ اس طرح کے نعرے درج تھے “حکم رانوں! بس بہت ہوگیا۔ اب مزید ظلم، نا انصافی اور تعصب نہیں چلے گا”، “اپنا حق مانگنا بھیک نہیں” اور “ہمیں اندھیرا نہیں روشنی چاہیے۔” لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کی پُکار پر آج تک کوئی حکومتی یا سرکاری عہدے دار ان کی داد رسی اور مسایل کے حل کی یقین دہانی کرانے نہیں پہنچا۔
قارئین، ان تمام مسایل کو مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں تک پہنچانے کےلیے عشریت کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر “عشریت کو حق دو”، “بجلی دو، ووٹ لو” اور “Light is our right” کے نام سے ایک ٹرینڈ کا آغاز بھی کیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس ٹرینڈ کے ذریعے ان کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچ جائے اور ان کی تکلیف اور آواز کو سنا جائے۔
لہٰذا ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مشتمل اس تحریر کے ذریعے حکومتِ وقت سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ خدارا، اگر پاکستانی شہری کی حیثیت سے نہیں، تو کم از کم انسانی بنیادوں پر عشریت کے لوگوں کےلیے ان کے در پر سہولیات کی فراہمی کا بندوبست تو کرے تاکہ عشریت کے باسی بھی دیگر پاکستانی شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔
___________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 22 جولائی 2022ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔
شیئرکریں: