آئینِ پاکستان میں صدرِ مملکت کو عہدے سے ہٹانے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق صدر اگر کوئی غیر آئینی اقدام کرے، تو ان کو عہدے کی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل مواخذے کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔
صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی سینیٹ یا قومی اسمبلی دونوں میں سے کسی ایک ایوان سے شروع کی جاسکتی ہے۔ مذکورہ ایوانوں میں سے ایک ایوان صدرِ مملکت پر الزامات عائد کرکے کارروائی کا آغاز کرے گا۔ یہ الزامات ایک نوٹس کی شکل میں ہوں گے جس پر ایوان کی مناسبت سے چئیرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی کے دوتہائی اکثریت کے ساتھ دستخط ہوں گے۔ یہ نوٹس صدرِ مملکت کو بھیجا جائے گا جس پر 14دن بعد بحث کا آغاز ہوگا۔
صدر کے مواخذے کی قرار داد دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا لازمی ہے۔ جس کے بعد 7 دن میں سپیکر قومی اسمبلی مشترکہ اجلاس طلب کرتا ہے۔ اس دوران صدر کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر مشترکہ اجلاس میں صدر کے مواخذے کی تحریک دو تہائی اکثریت سے منظور ہو جاتی ہے اور صدر کو آئین کی خلاف ورزی یا دیگر کسی نااہلی کے سبب عہدے کےلیے “اَن فٹ” قرار دیا جاتا ہے، تو اس کے بعد صدر کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
قارئین، پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی صدر کا مواخذہ نہیں کیا گیا۔ 2008ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مواخذے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم وہ کارروائی سے پہلے ہی عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
_______________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 24 فروری بروزِ جمعہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔