عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ایک قوم پرست سیاسی جماعت ہے، جو 1986ء کو آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری کی میزبانی اور اُصول پرست سیاست دان خان عبدالولی خان کی سربراہی میں معرضِ وجود میں آئی۔ اس کی ساری جد و جہد پختون قوم کی حقوق پر مرکوز رہی۔ اے این پی رنگ، نسل اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علم برداری کا نعرہ لگاتی ہے اور ملک میں ہمیشہ قیامِ امن کےلیے جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے۔
خدائی خدمت گار تحریک، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) کے سیاسی و نظریاتی بطن سے جنم لینے والی اے این پی کے قیام میں پختون، سندھی، بلوچ اور کسی حد تک پنجاب سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے سیاست دانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان میں صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) سے خان عبدالولی خان، خان محمد افضل خان لالا، عبدالطیف آفریدی، عبدالرحمان کرد (بلوچستان)، رسول بخش پلیجو (سندھ)، پروفیسر جمال نقوی، امداد چانڈیو، اعزاز نذیر اور احسان وائیں اور امتیاز عالم (پنجاب) شامل تھے۔
اے این پی ایک ایسے وقت وجود میں آئی جب سابقہ سوویت یونین (Soviet Union) اور امریکہ (America) کے درمیان جاری رہنے والی سرد جنگ (Cold War) 80ء کی دہائی کے دوران میں افغانستان میں بظاہر ایک گرم جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ جب کہ دوسری طرف وطنِ عزیز پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا وہ آمریتی دور تھا جس میں وہ افغان جہاد کے علاوہ خود ملک کے اندر اپنی صدارت کو طول دینے کےلیے “اسلامایزیشن” (
کو فروغ دینے کے ایجنڈے پر کار بند تھے۔ اس ملکی و بین الاقوامی صورتِ حال کے تناظر میں قائم ہونے والی اے این پی کا مقصد پاکستان میں مارشل لا کا خاتمہ، جمہوریت کی بحالی، چھوٹے صوبوں کے احساسِ محرمی کو ختم کرنے کےلیے مکمل صوبائی خود مختاری کا حصول، ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات کا قیام اور بالخصوص افغان پالیسی میں تبدیلی کےلیے جد و جہد کرنا تھا۔ تاہم جب 80ء کی دہائی کے آخر میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے آثار نمودار ہونے لگے اور دوسری طرف پاکستان میں بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے، تو اس دوران میں عوامی نیشنل پارٹی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ پارٹی میں شامل “پرو ماسکو” (Pro-Masco) کیمونسٹوں نے 9 اپریل 1989ء کو صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کے ضلع سوات میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں اُنہوں نے اے این پی کے اندر رہتے ہوئے خفیہ طور پر افراسیاب خٹک کی سربراہی میں “قومی انقلابی پارٹی” کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنا ڈالی، جو مذکورہ سال کے آخر میں ایک جداگانہ پارٹی کے طور پر سامنے لائی گئی۔ “قومی انقلابی پارٹی” کے قیام کے ساتھ ہی  “عوامی نیشنل پارٹی” پاکستان کے سیاسی نقشے پر ایک خالص پختون قوم پرست جماعت کے طور پر اُبھر کے سامنے آئی۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) اور بلوچستان کے پختون علاقوں کو اس کا گڑھ سمجھا جانے لگا جس کے بعد پنجاب کی بالا دستی کا خاتمہ، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت، صوبائی خود مختاری کا حصول اور افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی مبینہ مداخلت جیسے نِکات اے این پی کے سیاسی جدوجہد کا محور بن گئے۔
برِصغیر کی تحریکِ آزادی کے راہ نما خان عبدالغفار خان کے سیاسی نظریات کے زیرِ اثر “عوامی نیشنل پارٹی” ایک بااُصول، جمہوریت پسند، نظریاتی اور اسٹیبلشمنٹ سے مصلحت نہ کرنے والی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا اور سرد جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی متوقع کامیابی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اے این پی نے پہلی مرتبہ پنجاب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کر لیا اور باقاعدہ طور پر “اسلامی جمہوری اتحاد” (آئی جے آئی) کا حصہ بن گئی۔
پاکستانی سیاست اور بالخصوص پختون قومی تحریک میں اس کو ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا گیا جس کا خمیازہ عوامی نیشنل پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ممتاز قوم پرست راہ نما افضل خان لالا نے یہ کہہ کر 1989ء میں “پختون خوا قومی پارٹی” کے نام سے ایک الگ جماعت بنائی کہ اے این پی نے پنجاب کے ساتھ ہاتھ ملا کر پختونوں کے مفادات اور طویل جد و جہد کا سودا کر لیا ہے۔ ابتدا میں اس نئی جماعت کو پختونوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ شکست و ریخت کا شکار ہو کر خود بخود ختم ہوگئی۔
مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کے درمیان نو سال تک جاری رہنے والا اتحاد صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) اسمبلی کی جانب سے صوبے کے نام کو تبدیل کرکے “پختون خوا” رکھنے کے حوالے سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرار داد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے پاس کرانے پر مسلم لیگ (ن) کے انکار کے بعد ٹوٹ گیا۔
1989ء میں مسلم لیگ ( ن) سے اتحاد کے بعد بھی اے این پی پنجاب کی مبینہ بالا دستی، صوبائی خود مختاری کے حصول اور اسٹیبلشمنٹ مخالف منشور اور نعروں سے دست بردار نہ ہوئی۔ اس کے علاوہ پارٹی نے عملی طور پر کالا باغ ڈیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھرپور عوامی تحریک بھی چلائی۔
1988ء سے 1999ء تک پاکستان میں چار مرتبہ ہونے والے انتخابات کے دوران میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) اور مرکزی حکومت میں اقتدار میں رہنے کی وجہ سے اے این پی کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختون خوا کا نام دِلانا، پختون قوم کو ان کے نام سے شناخت دِلانا، اٹھارویں آئینی ترمیم میں صوبے کو اس کے قانونی حقوق دلوانا، اپنی پانچ سالہ دورِ حکومت (2008ء تا 2013ء) میں خیبر پختون خوا میں 9 نئی یونی ورسٹیاں بنانا، 75 کالجوں کا قیام اور بے شمار پرائمری اور ہائی سکولوں کی تعمیر تک سب کچھ پارٹی کے قابلِ ذکر سیاسی کارنامے تصور کیا جاتا ہے۔
قارئین! 2002ء کے عام انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی مایوس کن رہی، تاہم سیاسی مبصرین کا دعوا ہے کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث اے این پی کو کم ووٹ ملا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی اور صوبے پر اپنی حکومت قائم کی۔ اس طرح 2013ء کے عام انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی ایک بار پھر مایوس کن رہی۔ کیوں کہ اس کو 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں محض 2 نشستیں ملیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے اپنی نشستوں پر کام یابی حاصل کی جب کہ 2018ء کے عام انتخابات میں امیر حیدر خان ہوتی اپنی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کام یاب ہوئے۔
دہشت گردی پر موقف: دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے کی وجہ سے اے این پی کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔ اے این پی کے متعدد قائدین اور ورکرز دہشت گرد حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 2008ء میں پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تھے، جب کہ 2010ء میں اُن کی بہن ڈاکٹر گلالئی حملے میں زخمی ہوئی تھیں۔ اے این پی قائدین پر یہ حملے پہلی مرتبہ اس وقت شروع ہوئے جب سوات میں امن معاہدہ کے بعد طالبان نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ضلع بونیر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ خیبر پختون خوا میں اُس وقت برسرِ اقتدار اے این پی کی حکومت نے اس وقت کھل کر طالبان پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا اور ان کو “دہشت گرد” کے نام سے پُکارا۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیرستان سے لے کر سوات تک ہر طرف شدت پسندی کی آگ بھڑک رہی تھی اور طالبان تنظیموں کا اثر و رسوخ قبائلی علاقوں سے نکل کر خیبر پختون خوا کے دیگر شہروں میں بھی کافی حد تک بڑھ چکا تھا۔ شدت پسند تنظیمیں اُس وقت ہر جگہ اپنے مخالفین کو چن چن کر قتل کر رہی تھیں، جب کہ کوئی ان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت صوبہ میں برسرِ اقتدار اے این پی واحد سیاسی جماعت تھی جو کھل کر طالبان کی مخالفت کر رہی تھی۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران میں اے این پی کے 1 ہزار کے قریب راہ نما اور کارکن شدت پسندوں کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں جن میں وزرا، اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی اور عام کارکنان شامل ہے۔ اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان اور سیکرٹری جنرل غازی میاں افتخار حسین ایک تقریب کے دوران میں خوش گوار موڈ میں محوِ گفتگو ہیں۔

پارٹی کا منشور: اے این پی کا منشور خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے نظریات پر مبنی ہے جنہوں نے ہمیشہ عدمِ تشدد کا پرچار کیا اور صوبائی خود مختاری کے داعی رہے۔ پارٹی منشور کے اہم نِکات درجِ ذیل ہیں:
☆ خواتین کے حقوق سے متعلق منشور کے مطابق مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ ☆ مذہب، جنس اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔
☆ شہدا کے اہلِ خانہ کےلیے فنڈ قائم کیا جائے گا۔
☆ صوبائی خود مختاری کی مکمل حمایت کی جائے گی۔
☆ خواتین، دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اور غریب گھرانوں سمیت دیگر ضرورت مندوں کے لیے فنڈز تشکیل دیے جائیں گے۔
☆ ملازمت کے مواقع کے حوالہ سے منشور میں گھریلو صنعت اور کاروبار پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔
قارئین! اہم ملکی معاملات پر اے این پی کا بیانیہ کچھ یوں ہے :
☆ انتظامی اُمور میں پارٹی عسکری مداخلت کی سخت مخالفت کرتی ہے اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کی خواہاں ہے، تاکہ بجٹ کو عوام کی فلاح و بہبود کےلیے خرچ کیا جاسکے۔
☆ پارٹی صوبائی خود مختاری اور 18ویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد کی حامی ہے۔
☆ اے این پی کا موقف ہے کہ کسی صوبہ کے سرکاری افسر کو کسی دوسرے صوبے میں تعینات کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت طلب کی جائے۔
☆ پارٹی جمہوری نظام کے استحکام پر مکمل یقین رکھتی ہے۔
☆ پارٹی کا استدلال ہے کہ پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں، اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔
قارئین، افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ اور بڑھتی ہوئی “طالبانائزیشن” نے ایک معتدل، روشن خیال اور ترقی پسند پارٹی کے ناتے لوگوں کی نظروں میں اے ین پی کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کےلیے 2023ء کو ہونے والے مجوزہ عام انتخابات میں اے این پی کو اچھی پوزیشن حاصل ہوسکے گی اور شاید یہی وجہ ہے کہ اے این پی نے ابھی سے تمام ذیلی و مرکزی تنظیموں کو متحرک کیا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان ایمل ولی خان کی قیادت نے بھی پارٹی میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ عمر کی طرح اُن کا عزم و استقلال بھی جوان نظر آتا ہے۔ وہ پُرجوش ہونے کے ساتھ عوام کو ساتھ لے کر چلنے کا بھی ہنر رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اگر دیکھا جائے، تو ایمل ولی خان اور ان کے نوجوان کارکنوں نے جو سماں باندھ رکھا ہے، اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی پھول پھل رہی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اے این پی کو اب بھی متوسط طبقہ کی جماعت سمجھا جا رہا ہے۔ کیوں کہ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جو انتخابات میں سرمایہ داروں کی بجائے اکثر دیرینہ نظریاتی ساتھیوں کو ٹکٹ جاری کرتی ہے۔

اسفندیار ولی خان کے نوجواں بیٹے ایمل ولی خان کی قیادت نے پارٹی میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ عمر کی طرح اُن کا عزم و استقلال بھی جوان نظر آتا ہے۔ وہ پُرجوش ہونے کے ساتھ عوام کو ساتھ لے کر چلنے کا بھی ہنر رکھتے ہیں۔
فوٹو: عمر وزیر

قارئین، بلاشبہ اے این پی اپنا 35 سالہ سیاسی سفر طے کرنے کے بعد اب ایک قومی جماعت کی پہچان سے محروم ہوکر صوبہ خیبر پختون خوا کی ایک پختون قوم پرست پارٹی کے سانچے میں ڈھل چکی ہے لیکن یہ اب بھی ایک عوامی جماعت ہے جس میں نہ صرف پریشر پالٹیکس کرنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ اس کے پاس سٹریٹ پاؤر بھی موجود ہے اور وہ پاکستان کی ان چند جماعتوں میں شامل ہے جس میں محلے کی سطح پر قائم ایک یونٹ سے لے کر مرکزی صدر تک کا انتخاب جمہوری طریقے سے ہوتا ہے۔
اس طرح پارٹی کے اندر اختلافِ رائے کا اظہار اور اس کو برداشت کرنے کا کلچر بھی موجود ہے۔
______________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 31 دسمبر 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: