عظیم پختون مجاہد، روحانی صوفی بزرگ، پختون سیاسی راہ نما، حُریت پسند شخصیت اور سماجی کارکن حاجی فضل واحد المعروف ترنگ زئی حاجی صاحب 1858ء کو صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ کے گاؤں “ترنگ زئی” میں سادات گھرانے کے چشم و چراغ “حاجی فضل احد” کے گھر پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ ایک متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں جن کا تعلق حضرت کاکا صاحب کے خاندان سے تھا۔
اُس وقت ترنگ زئی مذہبی تعلیم کا مرکز تھا۔ اسی لیے حاجی صاحب نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مشہور عالمِ دین سید ابوبکر سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کےلیے پشاور کے گاؤں تہکال پایاں کے ایک مشہور و معروف مدرسے میں داخلہ لیا۔ مدرسہ کے مہتمم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی طریقت پر تھے۔ آپ نے حضرت نجم الدین (ہڈا ملا) سے بھی بیعت کی۔ مذکورہ مدرسے کے اساتذہ، طلبہ کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر کی آب یاری اور پرورش پر بھی زور دیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ فراغت کے بعد حاجی صاحب نے اپنی زندگی اسلام کی خدمت کےلیے وقف کردی۔ گاؤں واپس آئے، تو روزی کمانے کے لیے کھیتی باڑی کا پیشہ اپنایا اور ساتھ ہی اپنے آپ کو علاقے میں دعوتی سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رکھا۔ کچھ عرصہ گاؤں میں گزارنے کے بعد دارُالعلوم دیو بند (ہندوستان) چلے گئے جہاں دیگر پختون طلبہ نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے اُن کا تعارف کرایا۔ جس کے بعد حاجی صاحب اور شیخ الہند کا تعلق بڑھتا گیا اور 1294ء کو دونوں حج کی ادائی کےلیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ مذکورہ گروپ میں بانیِ دیوبند “مولانا محمد قاسم نانوتوی” جیسے دیگر بزرگانِ دین بھی شامل تھے۔ جب کہ گروپ کی سربراہی مولانا رشید احمد گنگوہی کررہے تھے۔ مکہ مکرمہ میں حاجی صاحب کو امداداللہ مہاجر مکی سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی جہاں اُنہوں نے ان سے بیعت کی۔ حج سے واپسی پر جب راولپنڈی پہنچے، تو حضرت بری شاہ لطیف کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔
قارئین، فضل واحد کی اب تک روایتی اسلامی پرورش تھی اور وہ پہلے ہی سے اسلام کا صحیح علم رکھتے تھے۔ امداد اللہ مہاجر مکی سے ان کی وابستگی اور ان کے ساتھ حج کی ادائی نے ان کے قد و قامت کو مزید تقویت بخشی جس کی وجہ سے لوگوں نے انہیں “حاجی صاحب” کا خطاب دیا۔ حاجی صاحب نے اپنی دعوتی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے قادری طریقت کے تحت حضرت نجم الدین (ہڈا ملا) سے ایک اور بیعت کی جو اخوند صاحب (سوات) کے خلیفہ تھے اور اُس وقت انگریزوں کے خلاف مسلح جد و جہد کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اپنی کئی مہمات میں انگریزوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے عوام میں مقبولیت پائی۔
1897ء کو جب ملاکنڈ اور چکدرہ میں برطانوی چھاؤنیوں پر حملہ ہوا، تو حاجی صاحب نے ہڈا ملا کی قیادت میں مسلح جد و جہد میں بھرپور حصہ لیا۔ اُنہوں نے ملاکنڈ، بٹ خیلہ، پیر کلے اور چکدرہ کے محاذوں پر انگریز سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 1902ء میں ہڈا ملا کے انتقال کے بعد مولانا محمد عالم (صوفی عالم گل) اُن کے خلیفہ مقرر ہوئے جس کے بعد حاجی صاحب نے ہڈا ملا کے نئے خلیفہ سے تجدیدِ عہد کیا۔ بدلے میں صوفی صاحب نے اپنی تلوار اور پگڑی بطورِ تحفہ دیتے ہوئے اُنہیں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ 1908ء میں حاجی صاحب کو ایک بار پھر حج پر جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ واپسی پر دوبارہ دعوتی کام شروع کرتے ہوئے ہر گاؤں اور شہر کا دورہ شروع کیا۔ ان کی اصلاحی سرگرمیاں پختون معاشرے کو سماجی برائیوں یعنی شادیوں پر فضول اخراجات، مسلمانوں کو ہندوؤں کے قرضوں سے نجات دلانا، غیر اسلامی رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ سے نجات دلانے پر مرکوز تھیں۔ اس کے علاوہ آپ نے لوگوں میں مسائل کو اپنے روایتی جرگوں کے ذریعے حل کرانے کی بیداری پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔
حاجی صاحب نے خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کو ساتھ لے کر اپنے زیرِ اثر علاقوں میں آزاد مکاتب اور مدارس قائم کیے۔ تعلیم کے فروغ کےلیے ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ میں پشاور، ہشت نغر اور مردان میں پچاس سے زائد آزاد سکول اور مدارس قائم ہوئے۔ اگرچہ یہ سرگرمیاں غیر سیاسی نوعیت کی تھیں لیکن انگریزوں نے اُنہیں اپنے نظامِ حکومت اور تعلیم کےلیے خطرات کے طور پر دیکھا جس کی وجہ سے انگریز سامراج نے حاجی صاحب پر متوازی حکومت چلانے کا الزام لگاتے ہوئے اُنہیں گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا۔ لیکن بعد میں عدم ثبوت کی بنا پر حاجی صاحب کو رہا کر دیا گیا، لیکن ان کے ساتھی کارکنوں (بشمول باچا خان بابا) کو تین سال تک قید کی سزا سنائی۔ اس انتقام کے باوجود حاجی صاحب نے تعلیم کے فروغ کےلیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ ان کے حامیوں اور ساتھی کارکنوں میں سب سے زیادہ قابلِ توجہ نام خان عبدالغفار خان (باچا خان)، مولانا سیف الرحمان (متھرا)، مولانا شاہ رسول خان (باڑہ گڑھی)، مولانا قاری محمد ادریس (بانڈہ محلہ)، قاضی صاحب کرھوی، میرا جان (زیارت کاکا صاحب)، مولوی عبدالعزیز (اتمان زئی)، مولانا تاج الدین (مردان)، مولانا شاکر اللہ (اتمان زئی)، مولانا قاری عبدالمستان (اکبر پورہ) اور مولانا سید زمان شاہ (صوابی) وغیرہ شامل تھے۔
1913ء کو صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے دارُالعلوم اسلامیہ پشاور (موجودہ اسلامیہ کالج پشاور) کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے افتتاح کےلیے حاجی صاحب ترنگ زئی کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ انگریزوں کی طرف سے تعلیم کو فروغ دینے کی کسی بھی کوشش کو عام لوگ اعتماد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ اسی لیے صاحب زادہ عبدالقیوم خان جانتے تھے کہ اگر کالج کو حاجی صاحب کی پشت پناہی حاصل ہو، تو کوئی بھی اس کے قیام کی مخالفت نہیں کرے گا۔ اس وقت کے چیف کمشنر “سر روز کیپل” کا بھی مؤقف تھا کہ لوگوں کی نظروں میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد شخص حاجی صاحب ترنگ زئی ہی ہیں اور ان کے تعاون سے کوئی بھی شخص مذکورہ ادارے کی مخالفت نہیں کرے گا، لیکن ان دونوں کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ کہیں حاجی صاحب انگریز مخالفت کی بنیاد پر یہ پیشکش ٹھکرا نہ دیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ پہلے حاجی صاحب کو کالج کی مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب کا افتتاح کرنے کےلیے کہا جائے۔ مسجد کی تعمیر کا کام پشاور کے حاجی کریم بخش سیٹھی نے انجام دیا۔ حسبِ توقع حاجی صاحب نے مسجد کے تعمیراتی کام کے افتتاح کی پیشکش قبول کرلی اور بعد ازاں حاجی صاحب نے کالج کا سنگِ بنیاد رکھنے کے افتتاح کا دعوت بھی قبول فرمایا۔ اس موقع پر صاحب زادہ عبدالقیوم خان اور سردار محمد اسلم خان بھی موجود تھے۔ حاجی صاحب نے کلمۂ طیبہ کا ورد شروع کرکے بنیاد کی پہلی اینٹ رکھ دی۔ اُن کے بعد دوسرے لوگوں نے بھی ایک ایک اینٹ رکھ دی اور یوں حاجی صاحب ترنگ زئی کی منظوری سے سرحد (خیبر پختون خوا) کا پہلا کالج قائم ہوا۔
اسلامیہ کالج کے قیام کا مقصد علی گڑھ کالج کی طرز پر لوگوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا تھا، جس نے پورے برصغیر کے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔
قارئین، پہلی جنگِ عظیم کے آغاز تک حالات بدل چکے تھے۔ ترکی کے خلافت عثمانیہ پر حملے کے نتیجے میں مسلم دنیا میں بڑے پیمانے پر بے چینی پھیل گئی تھی۔ جس کی وجہ سے برِصغیر کے مسلمانوں نے “تحریکِ حزبُ اللہ” اور “ریشمی رومال تحریک” سے انگریزوں کے خلاف اپنی مزاحمت کا آغاز کیا۔ 1914ء میں دہلی کی فتح پوری مسجد میں ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ تحریکِ حزبُ اللہ کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک گروپ جسمانی مزاحمت جب کہ دوسرا دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لے گی۔ مولوی محمود الحسن کی تجویز پر حاجی صاحب کو مزاحمتی گروپ کے لیے “امیرُ المجاہدین” مقرر کیا گیا۔ مذکورہ تحریک کا ارادہ ترک افواج کو افغانستان کے راستے قبائلی علاقوں میں تعینات کرنے کی اجازت دینا اور پھر مل کر برِصغیر میں برطانوی اور دیگر اہداف پر حملہ کرنا تھا لیکن یہاں انگریز بھی مقامی لوگوں کو زبردستی بھرتی کیا کرتے تھے اور پھر اُنہیں جنگ لڑنے کےلیے ترکی بھیجتے تھے۔ اس دوران میں افغانستان کے شہنشاہ امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کے ساتھ مل کر یہ عہد کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین ان کی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کےلیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ ساتھ ہی اُنہوں نے حزبُ اللہ کو بھی اندھیرے میں رکھا اور اُن سے مکمل تعاون کا وعدہ کیا۔ اس طرح حزبُ اللہ نے شہنشاہ امیر کی بات پر مکمل اعتماد کیا لیکن بعد میں اپنے فیصلے سے توبہ کرلی۔
اسی دوران میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا ابوالکلام آزاد کے پشاور آنے کی راہ ہم وار کی اور ایک تاریخی اجتماع میں عوام کو امیر حبیب اللہ خان کے دوہرے معیار کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کے تقدس کا دفاع کرنے کا عہد کیا۔ اجتماع میں شریک لوگوں نے حمایت کا اظہار کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کےلیے اعزازی کلمات کہے۔ 12 جون 1915ء کو حاجی صاحب ترنگ زئی پشاور تشریف لائے اور حکیم محمد اسلم سنجری کے گھر پر حزبُ اللہ کے ارکان کو ہدایات دیں۔ حاجی صاحب کی اہلیہ کا 9 مئی کو انتقال ہو گیا تھا اور اس طرح ان کی چہلم کی رسومات 18 جون کو ہو رہی تھی۔ حاجی صاحب نے اس دن سارا وقت ان مہمانوں کے ساتھ گزارا جو تعزیت کےلیے آئے تھے۔ ابھی وہ مہمانوں کے ساتھ تھے کہ ان کی پارٹی کے کارکنوں نے اُنہیں اطلاع دی کہ سرحدی حکومت نے 15 تاریخ کو ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ آدھی رات کو حاجی صاحب پشاور سے نکل کر اپنے بیٹوں اور قابلِ اعتماد ساتھیوں سمیت علاقہ مہمند کی طرف روانہ ہوئے۔ اگلے دن حکومت کو معلوم ہوا کہ حاجی صاحب گرفتاری سے بچ گئے ہیں۔
مذکورہ واقعہ پر ایک سینئر برطانوی اہل کار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “حاجی صاحب کا گرفتاری سے بچنا برِصغیر میں تاجِ برطانیہ کی سب سے بڑی ناکامی تھی۔”
مہمند پہنچنے کے چند ہی دنوں بعد حاجی صاحب نے چمرقند (باجوڑ) کے مجاہدین جس کی قیادت امیر نعمت اللہ خان کررہے تھے، کے ساتھ قریبی علاقوں میں برطانوی ٹھکانوں پر حملے تیز کر دیے۔ اگست 1915ء کو اُنہوں نے رستم (مردان) میں تعینات برطانوی کیمپ پر حملہ کیا جس میں زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اُنہیں مردان کے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کےلیے 16 ٹرک استعمال کیے گئے۔
مولانا غلام رسول مہر نے رستم حملوں میں مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد 600 تک لکھی ہے۔ انگریزوں نے محسوس کیا کہ اگر حاجی صاحب مہمند علاقہ کی بجائے پُرامن طریقے سے ترنگ زئی میں رہتے، تو یہ ان کے بہتر مفاد میں ہوتا۔ اس لیے انگریزوں نے پشاور سے اہم شخصیات کا ایک وفد تیار کیا اور انہیں “ٹاسک” دیا کہ حاجی صاحب کے پاس صلح کرانے کے لیے جائیں لیکن حاجی صاحب نے اسے بجا طور پر مسترد کیا۔
سال کے آخر میں حاجی صاحب نے ایک بار پھر جہاد کی اپیل کی۔ پشاور اور مردان حتیٰ کہ افغانستان کے لوگوں نے بھی اس دعوت کو قبول کیا۔ 1916ء تک ہزاروں مجاہدین باجوڑ اور مہمند میں تعینات تھے۔ انگریز اپنے خطرے کو پہلے بھانپ گئے تھے۔ “قلعہ شب قدر” میں مزید حفاظتی انتظامات کیے تھے۔ متنی پُل سے ابازئی پُل تک تمام راستے پر حفاظتی بنکر بنائے تھے اور مجاہدین کے وارڈ کےلیے 17 میل لمبی برقی باڑ لگا دی تھی۔
مذکورہ بالا حفاظتی انتظامات میں سے کسی کو خاطر میں لائے بغیر حاجی صاحب نے 6000 آدمیوں پر مشتمل لشکر کی کمان کی اور قلعہ شبِ قدر پر حملہ کیا۔ انگریز پہلے ہی حملے کی سنگینی جان چکے تھے کہ ان کی طرف سے بھاری جانی نقصان اُٹھائے بغیر لشکر کو پیچھے دھکیلنا ناممکن ہوگا۔ اس لیے اُنہوں نے فضائی بمباری کا سہارا لیا۔ ایک سخت جنگ لڑی گئی اور لشکر قلعہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لشکر میں شامل بہت سے لوگ بہادری کی وجہ سے امر ہوئے جن میں دوا جان کھوگہ خیل، جان خان، غلام جان، شیر علی خان، سید میران خان، میاں خان اور حضرت خان عیسیٰ خیل شامل تھے۔
1923ء میں انگریزوں نے مزاحمت کو ختم کرنے کےلیے اپنی فوجیں مہمند بھیجیں۔ تاہم اس بار کسی خون ریزی کی بجائے وہ جنگ بندی پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد اُنہوں نے اپنی فوجوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس معاہدہ کے بعد حاجی صاحب مختلف جگہوں پر عارضی قیام پذیر رہے۔ سوات، بونیر اور دیر کے بہت سے بااثر لوگ انگریزوں سے ٹکرانے کے خوف کی وجہ سے حاجی صاحب کو مستقل پناہ دینے سے کتراتے تھے۔ کافی گفت و شنید کے بعد حاجی صاحب قبائل کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور خود کو سور کمر میں آباد کرلیا۔ جہاں ایک درویش فقیر “گوڈ ملا” نے ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کی تھی۔ لوگ مسجد کو دیکھ کر حیران رہ جاتے اور پوچھتے کہ علاقے میں نمازِ جمعہ یا نمازِ عید کےلیے 10 سے زیادہ لوگ نہیں، تو اتنی بڑی مسجد کے تعمیر کی کیا ضرورت ہے…؟ گوڈ ملا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اللہ تعالا اس مسجد میں ایسے نیک بندے کو بھیجے گا کہ یہ بڑی مسجد بھی اس کے تمام پیروکاروں کےلیے کافی نہیں ہوگی۔ یوں حاجی صاحب کی آمد سے یہ بات درست ثابت ہوگئی۔ حاجی صاحب نے یہاں آباد ہونے کے بعد سور کمر کا نام تبدیل کرکے غازی آباد رکھا۔
قارئین! کہا جاتا ہے کہ سور کمر میں پانی کی شدید قلت تھی اور صرف ایک چھوٹی سی ندی تھی جو دس سے پندرہ لوگوں کے وضو کے لیے کافی تھی۔ ایک صبح حاجی صاحب وہاں گئے اور اللہ تعالا سے دعا مانگی جس کی بدولت ندی میں پانی کی گنجائش اتنی بڑھ گئی کہ آج بھی ندی پر چار پن چکیاں چلتی ہیں۔ اب یہ ندی تقریباً تین، چار مربع میل کے علاقے کو پانی فراہم کرتی ہیں۔
1926ء کو انگریزوں نے مہمند میں سڑکیں بنانے کا ایک منصوبہ شروع کیا تاکہ ضرورت پڑنے پر فوج کو آسانی سے منتقل کرسکے۔ حاجی صاحب نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے انگریزوں کے ساتھ 1926ء اور 1927ء کو دو اہم محاذ آرائیاں کیں جن میں مشہور مجاہد “لنگر فقیر صاحب” نے بھی حصہ لیا لیکن انگریز اپنے منصوبے کو مکمل کرنے میں کامیاب رہا۔
1928ء کو حاجی صاحب کے گھٹنے میں چوٹ لگی جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوکر چارپائی تک محدود رہ گئے لیکن اُن کے پیروکار پھر بھی اُنہیں مختلف نزدیک علاقوں میں لے جاتے اور یہی وجہ ہے کہ معذوری کے باوجود بھی حاجی صاحب ہر معرکہ میں ہدایات دینے اور اپنے پیروکاروں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے حاضر رہتے۔
1930ء کو صوبہ سرحد میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑ لی، جس کی وجہ سے قصہ خوانی پشاور میں انگریزوں نے احتجاج کرنے والے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ یوں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ نے قبائلیوں کو مشتعل کیا اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت دس گنا بڑھ گئی۔ اتمان خیل کے لشکر نے مئی 1930ء میں ہشت نغر میں انگریزوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ انگریزوں نے ان کا راستہ روکنے کےلیے ہوائی بمباری کا سہارا لیا لیکن پیچھے ہٹنے کے بجائے اتمان خیل کے لوگوں نے “جنڈے خوڑ” کے گرد اپنا محاصرہ قائم رکھا۔ جہاں سے اُنہوں نے کافی دنوں تک سرکاری اہداف پر حملے جاری رکھے۔
کچھ عرصہ بعد انگریزوں نے ہشت نغر سے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ اسی دوران میں حاجی صاحب کے بڑے بیٹے حضرت بادشاہ گل کی قیادت میں ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ایک لشکر تشکیل دیا گیا۔ ساتھ یہ دھمکی دی گئی کہ اگر گرفتاریاں بند نہ ہوئیں، تو حکومتی اہداف پر حملہ کیا جائے گا۔ اس نئے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے انگریزوں نے مہمند میں لوگوں کو زیر کرنے کےلیے جاسوس مشنریوں کی پروازیں شروع کردیں جنہوں نے حلیم زئی میں کچھ “پمفلٹ” گرائے جس میں مقامی لوگوں کو تنبیہ دی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص حاجی صاحب یا اُن کے ساتھیوں میں سے کسی کو سہولت فراہم کرتا ہوا پایا گیا، تو اس کو نشانِ عبرت بنایا جائے گا۔
انگریزوں کے یہ ہتھکنڈے بھی کام نہ آئے اور نتیجتاً مہمند لشکر ہشت نغر کی طرف بڑھنے لگا جس کے نتیجے میں رائل ایئر فورس نے بے رحمی سے وادی گندھب پر بمباری کی جہاں لشکر کی خوراک اور گولہ بارود وغیرہ رکھا گیا تھا۔ اس دوران میں انگریزوں نے لوئر مہمند سے سات معزز مَلَکوں پر مشتمل ایک جرگہ حضرت بادشاہ گل کے پاس بھیجا تاکہ ان کو پیچھے ہٹنے پر راضی کیا جاسکے لیکن اُنہوں نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے۔ لشکر 13 جون 1930ء تک مضبوط رہا لیکن ان کی پوزیشنوں پر مسلسل بمباری کی وجہ سے اُنہیں کافی نقصان پہنچا۔ 1931ء اور 1933ء کے درمیان انگریزوں کے ٹھکانوں، قافلوں اور ان کی تنصیبات پر بہت سے حملے کیے گئے لیکن وہ برطانوی گڑھ شب قدر تک نہیں پہنچ سکے۔ کیوں کہ نچلے مہمندوں نے امن معاہدہ کر رکھا تھا۔
1935ء میں انگریزوں نے میجر جنرل مسپرٹ (Major General Musprat) کی عدم موجودگی کی وجہ سے بریگیڈیئر آکنلنک (Brigadier Auckenlick) کے زیرِ قیادت اَپر مہمند میں تین بریگیڈ فوج بھیجی، تاکہ بغاوت کو ہمیشہ کےلیے ختم کیا جاسکے۔ مہمند نسبتاً ایک چھوٹا قبیلہ ہے لیکن اُنہوں نے دلیرانہ مزاحمت کرتے ہوئے درہ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
قارئین! میجر جنرل ہیملٹن نے جب سیکنڈ لیفٹیننٹ فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا، تو اُنہوں نے اپنی یادیں تازہ کرنے کےلیے اس علاقے کا دورہ کیا۔ جہاں مہمند کے “شارپ شوٹرز” کے ایک گروپ نے ان کی پوزیشنوں کا محاصرہ کرتے ہوئے محض ایک رات میں 35 برطانوی افسران کو ہلاک اور 60 کو زخمی کیا تھا۔ مذکورہ جنگ میں حصہ لینے پر ملکۂ برطانیہ نے جنرل ہیملٹن کو “Distinguished Service Order” (ڈی ایس اُو) یعنی برطانوی اعلا فوجی ایوارڈ سے نوازا۔ نتیجتاً انگریزوں نے ان جھیلوں اور تالابوں کو زہر آلود کردیا جو مجاہدین کےلیے پانی کے اہم ذرائع تھے۔ یہ حاجی صاحب کا انگریزوں کے خلاف آخری جہادی معرکہ تھا۔
ان تمام کامیاب و ناکام مہمات کے بعد انگریزوں اور مہمندوں کے درمیان گندھب میں ایک عظیم الشان جرگہ منعقد ہوا جس میں تمام مہمند مَلَکوں نے شرکت کی۔ طویل بحث کے بعد فریقین کچھ شرائط پر متفق ہوئے اورایک امن معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1936ء میں حاجی صاحب شدید بیمار ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحت مزید بگڑتی گئی۔ بالآخر 14 دسمبر 1937ء کو انتقال کرگئے۔ اُن کے پسماندگان میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ بڑے بیٹے حضرت بادشاہ گل نے اُن کے انتقال کے بعد ذمہ داریاں سنبھالیں۔ حضرت بادشاہ گل پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا ) کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ ضلع مہمند میں حاجی صاحب کا مقبرہ لوگوں کےلیے ایک مقدس زیارت بن گیا ہے۔ 1979ء میں ان کے بچوں نے اپنے والد کی قبر کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر شروع کی جو 1990ء میں مکمل ہوئی۔ مذکورہ مسجد “ترنگ زئی بابا جی مسجد‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
قارئین، یہ تحریر دراصل راقم کو ملنے والے اسائنمنٹ بعنوان “Haji Sahib of Turangzai, A prominent religious and political personality” کا اُردو ترجمہ ہے۔ اسے لکھتے وقت مختلف کتب اور آرٹیکلز سے مدد لی گئی ہے۔
__________________________________
محترم قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 24 دسمبر 2021ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔