ہماری نوجواں نسل مغربیت پسندی اور ہندوانہ رسم و رواج کو اپنا رہی ہے۔ اس اپنائیت میں الیکٹرانک، سوشل اور پرنٹ میڈیا سارے برابر کے شریک ہیں۔ لیکن سارے کا سارا قصور اُن پر ڈالنا بھی ناانصافی ہوگی، کیوں کہ ہم بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم روز بروز اس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ پہلے پہل تو اِن رسومات کو ادا کرنے میں مزہ آتا ہے اور اس سے وقتی طور پر ہماری تعریف تو ہوتی ہے، لیکن یہ وقتی واہ واہ بعد میں ہمارے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے، جس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کیوں اِنہی غلط رسم و رواج کی وجہ سے لوگ اپنی جائیداد تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کثیر تعداد اس رسم ورواج کی بھینٹ چڑھ جاتےہیں۔
پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالا عنہ کی زندگی تکلفات سے پاک اور دور تھی۔ کیوں کہ اُنہوں نے زندگی کے ہر معاملے میں قرآن وسنت ہی کو اپنا مشعلِ راہ بنا رکھا تھا، لیکن ہمارے ہاں معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
قارئین! ہم دوکاموں یعنی خوشی اور غم میں دینِ اسلام کی دخل اندازی بالکل برداشت نہیں کرتے، اگرچہ اصل میں یہ دو مواقع ہی ہمارے دینی ٹسٹ ہوتے ہیں کہ ہم دین سے کتنی محبت کرتے ہیں…؟ ہم یکسر قرآن و سنت کو نظر انداز کرتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنی غلط رسوم و رواج کو کنٹرول کرنا ہوگا، ورنہ یہ ہمارے مستقبل کےلیے اچھا نہیں ہوگا۔ خوش قسمتی سے آج بھی ایسے خیر خواہ لوگ ہمارے معاشرے میں جیوت ہیں، جن کو اپنی اور آنی والی نسلوں کی فکر رہتی ہے۔ پچھلے سال مدین اور بحرین والوں نے رسم و رواج بارے اپنا ایک رواج نامہ تشکیل دیا تھا، جو مجھے بڑا پسند آیا تھا، لیکن پتا نہیں کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں، خیر اقدام اچھا تھا۔
اب حال ہی میں تحصیل مٹہ کے گاؤں کوزہ درش خیلہ میں ایک رواج نامہ منظر عام پر آیا ہے جس پر اگر عمل کیا جائے، تو عوام کو بڑی آسانی ہوگی اور باقی لوگوں کےلیے ایک مثال قائم ہوجائے گی۔
قارئین! دل چسپی کےلیے مذکورہ رواج نامے کو مِن و عن پیش کیا جارہا ہے، ملاحظہ ہوں۔
نکاح میں مہمانوں کی تواضع زیادہ سے زیادہ ایک کھجور اور شربت سے کی جائی گی۔ نکاح کے بعداور شادی سے پہلے دونوں گھرانے دعوت کی غرض سے ایک دوسرے کے گھر نہیں جائیں گے۔ جب کہ کم ازکم مہر “مہرِ فاطمہ” رضی اللہ تعالاعنہ کے برابر ہوگی۔
دورانِ عیدین اور شوقدر (شبِ قدر) وغیرہ میں تحائف کا تبادلہ نہیں ہوگا۔ دورانِ شادی دلہن سادہ لباس زیبِ تن کرےگی، دلہن کو زیادہ سے زیادہ دس جوڑے (کپڑے) دیئے جائیں گے۔ دلہا اور دلہن دونوں کی طرف سے رشتہ داروں میں کپڑے تقسیم نہیں ہوں گے۔ البتہ دلہن اپنی ساس اور سسرکو ایک ایک جوڑا تحفتاً دے سکتی ہے۔
رسمِ انگھوٹی پر دلہا سالیوں کو رقم نہیں دے گا اور لڑکے والے حسبِ استطاعت ولیمہ دیں گے۔
بارات میں زیادہ سے زیادہ پانچ گاڑیاں ہوں گے۔ آتش بازی بالکل نہیں ہوگی۔
دلہن والے دلہے کے گھر والوں کو نہ نقد اور نہ ہی سونا دیں گے، جب کہ جہیز کم سے کم رکھا جائے گا۔
شادی سے پہلے شمعوں والی رسم اور ساتویں دن والی دعوت کا خاتمہ کیا جائے گا۔
بچے یا بچی کی پیدائش پر سارے رسومات کا خاتمہ ہوگا، ہاں زیادہ سے زیادہ دو کپڑے کرسکتے ہیں۔
دورانِ فاتحہ خوانی مٹھائی اور بسکٹ کا دور نہیں چلے گا۔فوتگی والے گھر میں جمعہ اور چالیسواں وغیرہ نہیں ہوگا۔
خوشی اور غمی میں شرکت کرنی ہو، تو زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے ہی دینے ہوں گے۔
قارئین! درجہ بالا شقوں کے ساتھ یہ رواج نامہ مرتب کیا گیا ہے جو بڑی خوش آئند اور قابلِ ستائش بات ہے اور مہنگائی کی اس دور میں یہ تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن بلّی کی گلی میں گھنٹی کون باندھے گا…؟ یعنی اس پر عمل کرانا یا اسے معاشرے میں لاگو کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
جاتے جاتے ربِ کائنات سے یہی دعا ہے کہ اس عظیم عمل پر سب کو استقامت اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
__________________________________
محترم قارئین، توجہ فرمائیں!
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 11 نومبر 2021ء کو روزنامہ آزادی نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔