شہیدوں کے گھرانے کا چشم و چراغ، ذہین، قابل، خوش اخلاق، دلیر، نڈر، مخلص، ہنس مکھ اور نوجواں سیاست دان ہارون بلور شہید 3 اگست 1974ء کو پشاور میں بے باک سیاست دان اور شہیدِ امن بشیر احمد بلور کے گھر میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم سینٹ میرینز سکول پشاور سے حاصل کی اور پھر ایڈورڈز کالج پشاور میں داخلہ لیا۔ بچپن ہی سے سیاست سے دلی لگاؤ رکھنے کی وجہ سے ایڈورڈز کالج میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کا حصہ بن گئے ْ اور یوں باقاعدہ طور پر طلبہ سیاست میں قدم رکھا۔ ایڈورڈز کالج سے فراغت کے بعد قانون کی ڈگری یونی ورسٹی آف پشاور سے حاصل کی اور مزید اعلا تعلیم کےلیے برطانیہ چلے گئے۔ جہاں سے بار ایٹ لا کی۔ وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن عزیز اور اس کے باسیوں کی خدمت کےلیے واپس لوٹ آئے اور ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے باقاعدہ عملی زندگی میں قدم رکھا۔

سیاسی گھرانے میں جنم لینے کے باعث سیاست ان کی رگ رگ میں شامل تھی۔ اس لیے انہوں نے وکالت کو خیر باد کہہ کر عملی سیاست میں قدم رکھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہلی بار عوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا اور سرخرو ہوکر پشاور کے ٹاؤن ون کے ناظم اعلا کی کرسی پر براجماں ہوئے۔ دورانِ نظامت آپ نے نہ صرف علاقے کی عوام کی بھرپورخدمت کی بلکہ خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مصروفیات کے باوجود اپنے والدِ محترم بشیر احمد بلور کے ساتھ ہر سیاسی سرگرمی میں بھرپور ساتھ دیتے رہے۔ والد کی شہادت کے بعد خیبر پختونخوا میں وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی کے مشیر مقرر کئے گئے۔ 2013ء کو پہلی بار صوبائی اسمبلی کےلیے الیکشن لڑی لیکن قسمت کی دیوی نے ساتھ نہیں دیا۔ 2014ء کو عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی  کابینہ کا حصہ بن گئے اور سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ انہوں نے عوام کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھنے کےلیے ایک مرتبہ پھر 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر پی کے 78 سے صوبائی الیکشن کےلیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور الیکشن میں کامیابی کےلیے جلسےجلوسوں کاسلسلہ شروع کیا۔ عوام دوست ہونے کی وجہ سے خود جلسوں اور کارنر میٹنگز میں شریک ہوا کرتے تھے۔
آپ ان شہیدوں میں سے ہیں، جنہوں نے ملک اور عوام کو نشانہ بنانے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے میدان میں کھڑے ہوکر جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ شہید ہارون بلور اپنے والد کی طرح دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہے اور ہمیشہ عوام کے درمیان رہ کر سیاست کی۔ دہشت گردوں کی دھمکیوں کے باوجود اپنے والد کی طرح ہر ناخوش گوار واقعے کے بعد موقع پر پہنچنا ان کا بھی معمول تھا اور اس نے ان کو عوام الناس میں بے حد مقبول بنا دیا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی اور خاص کر بلور خاندان دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہونے کی وجہ سے ان کے نشانے پر تھا لیکن اس کے باوجود آپ ہر جلسے میں شرکت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ انہوں نے شہادت سے چند دن پہلے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پشاور ہمارا شہر ہے اور ہمیں اس کا تحفظ کرناہے۔ آپ کا یہ شعر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا کہ:
میں چھپ چھپ کے کہیں کھڑا نہیں
ڈٹے ہیں محاذوں پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
آپ 2018ء کے عام انتخابات سے ٹھیک 14 دن پہلے پشاور کے علاقے یکہ توت میں عشاء کے وقت ایک کارنر میٹنگ میں شرکت کےلیے پہنچے، تو وہاں پر موجود کارکنان نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ دھماکے سے کچھ دیر قبل کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہید ہارون بلور کے ساتھ کارکنان سیلفیاں لے رہے تھے اور یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری تھا۔جوں ہی آپ سٹیج تک پہنچے تو اسی دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کی چند منٹ بعد ہی معلوم ہوا کہ دہشت گرد اپنے مزموم عزائم میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ خودکش حملے کے نتیجے میں ہارون بلور کے ساتھ 20 سے زائد کارکنان بھی جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ آپ کی شہادت پر پورے ملک اور خاص کر خیبر پختون خوا کی فضا کئی دنوں تک سوگوار رہی۔
دھماکے کے بعد ان کے بڑے بیٹے دانیال ہارون بلور نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “دھماکے سے کچھ دیر قبل ان کے والد ہارون بلور نے میرے دوست کو فون کیا کہ تم لوگ کہاں ہو، یہاں کوہاٹی گیٹ میں بڑا جلسہ ہے۔ آپ اِدھر آجائیں، تو ہم ادھر روانہ ہوگئے۔ ہم ابھی جلسہ گاہ نہیں پہنچے تھے کہ راستے میں اطلاع ملی کہ جلسہ گاہ میں دھماکہ ہو گیا ہے اور یوں سب کچھ پلک جھپکتے ختم ہوگیا۔”
خیبر پختون خوا کے عوام کے دلوں میں بلور خاندان اور خاص کر ہارون بلور کےلیے پیار و محبت کے جذبات مزید بڑھ گئے۔ ہارون بلور کی شہادت کے بعد دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اپنی ڈی پی پر “زہ ہارون بلور یم” والی تصویر لگائی اور ابھی تک یہ نعرہ عوام میں مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ٹویٹر پر “میں بھی ہارون بلور ہوں” کا ہیش ٹیگ چلایا گیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی کے 78 پر انتخابات ملتوی کردئے گئے تھے اور بعد میں اسی نشست پر شہید ہارون بلور کی اہلیہ ثمر بلور نے اپنی شوہر کا مشن جاری رکھتے ہوئے الیکشن لڑی اور پہلی مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
شہید ہارون بلور کی شہادت کو چار سال بیت چکے ہیں۔ ربِ  کائنات ان کو اور ان کے والد شہیدِ امن بشیر احمد بلور کو جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے اور بلور خاندان کو مزید مشکلات غم ورنج اور آزمائشوں سے دور رکھے، آمین!
شیئرکریں: