ممتاز سندھی قوم پرست سیاست دان، دانشور اور ادیب جی ایم سیّد نے17 جنوری 1904ء کو صوبہ سندھ کے ضلع دادو کے گاؤں “سن” میں معروف مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ سیّد محمد شاہ کاظمی کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کا اصل نام غلام مرتضیٰ سیّد تھا، لیکن سیاست و ادب کے میدان میں جی ایم سیّد کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔
آپ نے 1935ء کو سندھ بمبئی علاحدگی اور سندھ کی پاکستان میں شمولیت کے حوالے سے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ آپ ہی نے تین مارچ 1943ء کو سندھ اسمبلی میں سندھ کے سینیئر سیاست دان کی حیثیت سے پاکستان کے قیام کےلیے قرارداد پیش کی تھی۔ اُس وقت صوبہ سندھ مذکورہ قرارداد پیش کرنے والا پہلا صوبہ تھا، لیکن پاکستان بننے کے بعد جی ایم سیّد نے 1971ء میں سقوطِ بنگال کے بعد اور 1973ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی دورِ حکومت میں “سندھو دیش” یعنی سندھ کے ایک آزاد حیثیت میں قیام کا تصور پیش کیا، جس کی وجہ سے اُنہیں غدار قرار دے کر گرفتار کیا گیا۔
یہ1930ء کا زمانہ تھا جب آپ نے “سندھ ہاری کمیٹی” کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ “سندھ عوامی محاذ” کے بانی بھی تھے۔ سائیں جی ایم سیّد قیامِ پاکستان کے وہ ہیرو ہیں، جن کی بدولت آج صوبہ سندھ پاکستان کا حصہ ہے۔ کیوں کہ اُس وقت جی ایم سیّد ہی مسلم لیگ کے واحد نمائندے تھے، جنہوں نے نہ صرف سندھ اسمبلی میں قیامِ پاکستان کے حق میں قرار داد پیش کی، بلکہ اُسے بھاری اکثریت سے پاس بھی کروایا، جس کی وجہ سے سندھ پاکستان کا حصہ بنا۔

جی ایم سید 1940ء سے 1941ء تک سندھ کے وزیرِ تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔

عدمِ تشدد، جمہوریت، سیکولرازم، قومی خود انحصاری و خود مختاری، جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اشتراک و یگانگت اور معاشرتی و اقتصادی مساوات ان کی سیاست کا بنیادی محور تھا۔ اسی سوچ کے بل پر آپ 1955ء کو باچا خان کے فلسفۂ عدمِ تشدد کی تسلسل یعنی “نیشنل عوامی پارٹی” کے قافلے میں شامل ہوگئے، لیکن ممتاز سندھی دانشور، ادیب اور معلم محمد ابراہیم جویو کی مشاورت سے سندھی قوم پرستی کا نعرہ لگایا جو مارکس ازم، کبیر، گرونانک اور گاندھیائی فلسفۂ حیات کا ملغوبہ تھا۔ اس کے علاوہ 1966ء کو بزمِ صوفی سندھ، 1969ء میں سندھ یونائیٹڈ فرنٹ اور 1972ء کو جیے سندھ محاذ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

قارئین! یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں جن لوگوں کو غدار ٹھہرایا گیا، ان میں سے زیادہ تر کو قوم نے غدار تسلیم نہیں کیا۔ کیوں کہ لوگوں نے اسے ایک ناقص سیاسی حربہ ہی سمجھا۔ فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور جی ایم سید کی عزت و توقیر میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ البتہ انہیں غدار کہنے والوں کی اپنی کوئی حیثیت تاریخ کے صفحات پر رقم نہیں۔

جی ایم سیّد ایک سندھی قوم پرست راہ نما اور منجھے ہوئے قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی ازم، شاعری، تاریخ، فلسفۂ اسلام، نسلیات اور ثقافت کے بھی ماہر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ساٹھ سے زائد کتب کے خالق ہیں، جن میں 08 کتابیں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے۔ موصوف کی”مذہب اور حقیقت” ایک مراکتہ آرا کتاب ہے۔ آپ زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم، سندھی قومیت و ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھ چکے ہیں۔
آپ اپنی سیاسی نظریات کی بنا پر تیس سال پابندِ سلاسل رہے۔ آخری بار 19 جنوری 1992ء کو اُن کے گھر (کراچی) ہی کو “ذیلی جیل” قرار دے کر اس میں نظر بند کر دیے گئے اور یوں وہ 25 اپریل 1995ء کو دورانِ نظر بندی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ لیکن اُن کی خدمات کو ہمیشہ کےلیے قدر کی نگاہ سے دیکھ کر اسے تاقیامت یاد رکھے جائیں گے، کیوں کہ تاریخ ہمیشہ ایسے شخصیات کو یاد رکھتی ہے۔
ربِ کائنات موصوف کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلا مقام عطافرمائے، آمین !

شیئرکریں: