محترم جناب چیئرمین صاحب! امید ہے کہ آپ بہ خیر و عافیت ہوں گے۔ سب سے پہلے آپ کو اس اہم ذمہ داری سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ اپنے ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں گے۔

جناب والا! آج بندہ بطورِ لکھاری نہیں بلکہ ایک شاگرد اور ایک عام شہری کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں گذارش کرنے جارہا ہے۔ گذارش یہ ہے کہ کل یعنی 19 ستمبر 2021ء کو بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (بی آئی ایس ای) سوات کے میٹرک اور ایف ایس سی کے نتائج سنائے گئے، تو کیا دیکھا کہ چار طالب علموں نے 1100 میں سے 1098 مارکس لے کر بورڈ میں مشترکہ طور پر پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ اسی طرح دوسری طالب علم نے 1096 اور تیسری نے 1092 مارکس لے کر بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔
جناب والا! ہم اپنی آنکھوں سے تعلیم کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، پر کچھ نہیں کر پا رہیں۔ آخر کیا بنے گا اس قوم کا…؟
مارکس لینا تو گویا اب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ 1100 میں سے ایک بندہ 1098 مارکس کس طرح لے سکتا ہے…؟ یہ کیا مذاق ہے! کیا ہم اتنے ذہین ہوچکے ہیں کہ سو فیصد پیپر حل کرنے کے قابل ہوگئے ہیں…؟
کیا ہمارے تعلیمی ادارے اتنے معیاری ہوچکے ہیں کہ بچوں کو مکمل کورس سمجھانے کے ساتھ زبانی یاد بھی کراتے ہیں…؟
میں نے اپنے ایک معزز پروفیسر سے سنا ہے کہ “میں نے بحیثیت انسپکٹر ایک ہال کا معائنہ کیا اور ایک امیدوار کو تلاشی لینے کی غرض سے کھڑا کیا تو فوراً کسی نے فون کیا کہ جناب آپ فوراً اس ہال سے نکل جائیں، کیوں کہ آپ نے جو امیدوار کھڑا کیا ہے یہ ایک MPA کا بیٹا ہے۔”  یہ ہے ہمارے امتحانی نظام کا حل!
جناب والا! کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے، اس لیے آج آپ کو ان مارکس کی حقیقت بتاتا ہوں۔ اپنے ایک قابل عزت اور ہزاروں شاگرد رکھنے والا تجربہ کار پروفیسر کی زبانی سنیئے “میں اپنے چھوٹے سے کیریئر میں بطورِ پروفیسر امتحانی ڈیوٹی دے چکا ہوں، نیز پریکٹیکل، بطورِ انسپکٹر، بطورِ سپرنٹنڈنٹ ہال بھی ڈیوٹی دے چکا ہوں، یو ایف ایم کمیٹی میں بیٹھ چکا ہوں اور پرچے بھی چیک کر چکا ہوں۔
مارکس کےلیے دو نمبری کہاں سے شرو ع ہوتی ہے، اس کے نو (9) مراحل ہیں۔
اولین مرحلہ پیپر بنانا ہے۔ ہمارا کورس ایک معلوم سلیبس کے مطابق ہے۔ یہ بالکل محدود کورس ہے اس کے باوجود پیپر میں بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں۔ ایک رٹہ رٹایا اور بے کار قسم کا پیپر بنایا جاتا ہے۔ پیپر میں چائس دیا جاتا ہے کہ 10 میں سے 8 سوالات کے اور 5 میں سے 3 کے جوابات دینے ہیں۔
دوسرا مرحلہ، سکول والے پہلے بورڈ تک اپروچ کرتے ہیں کہ ان کے امتحانی ہال پہ ان کے مرضی کے لوگوں کی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ سیاسی لوگوں کے سکول تو ایمان دار عملے کی ڈیوٹی سے بالکل مستثنا ہوتے ہیں۔ وہاں تو بعض لوگ ٹرانسفر کے ڈر سے پہلے ڈیوٹی دیتے ہی نہیں اور اگر دیں بھی، تو محض چمچہ گیری کرتے پائے جاتے ہیں، تاکہ کل اس کا بھی کام ہوجائے۔
تیسرا مرحلہ، اگر چوائس کے بندے نہ آئے تو پھر جو لوگ آتے ہیں ان سے شناسائی بڑھائی جاتی ہے۔ انہیں مانوس کیا جاتا ہے۔ پہلے ہی دن امتحانی عملے کو کسی بڑے ہوٹل یا تفریحی مقام پر  لے جایا جاتا ہے اور لذیذ کھانوں سے امتحانی عملے کے ضمیر کا سودا کیا جاتا ہے۔ میں نے یہاں تک سنا ہے کہ امتحان کےلیے کچھ بڑے بڑے سکول امتحانی عملے کو عمرے تک کرواتے ہیں۔ اکثر سکولز میں پرنسپل صاحبان اس مقصد کےلیے بچوں سے پیسے بھی جمع کرتے ہیں کہ ان پیسوں سے عملے کو پرتکلف کھانا کھلایا جائے۔ یہ نمک بھی عجیب چیز ہے، جب کسی کا نمک کھایا، تو پھر اس کا حق بہر طور ادا کرنا ہوتا ہے۔
چوتھا مرحلہ، جب امتحانات شروع ہوجاتے ہیں، تو نقل کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ نقل لینا تو دور کی بات، یہ نمک حلال امتحانی عملہ ان بچوں کو خود نقل دیتا ہے۔ پارٹ اے تو پیپر شروع ہونے سے پہلے ہی آوٹ ہوجاتا ہے۔
پانچواں مرحلہ معائنہ کا ہوتا ہے۔ بورڈ امتحان میں جب ایک مرحلہ پر انسپکٹر آدھمکتا ہے، تو پرنسپل صاحب جا کر ان سے ملتا ہے اور باتوں ہی باتوں میں ٹائم ضائع  کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسپکٹر سے پتہ معلوم کیا جاتا ہے۔ انسپکٹر پرنسپل کے ہاں سے اٹھتا نہیں کی ان کو کال موصول ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ جناب ہال سے نکلیں۔ یہ پرنسپل جان پہچان والا ہے۔ یوں انسپکٹر چائے کے ساتھ چکن نوشِ جاں فرما کر واپس چلا جاتا ہے۔
چھٹا مرحلہ پریکٹیکل کا ہوتا ہے۔ پریکٹیکل والا ہمیشہ ہی اپنے چوائس کا لگایا جاتا ہے۔ اسے بھی لذیذ کھانے کھلا دیے جاتے ہیں، سیر سپاٹوں پہ لے جایا جاتا ہے اور جواباً فل مارکس حاصل کیے جاتے ہیں۔
ساتواں مرحلہ پیپر چیکنگ کا ہوتا ہے۔ امتحانی عملے اور انسپکٹر کے بعد باری آتی ہے پیپر مارکنگ کی۔ پیپر مارکنگ کے بھی پیسے ملتے ہیں تو بہت سارے لوگ پیپر چیک کرنے کیلیے بورڈ کے چکر لگاتے ہیں۔ پیپر اگر اپنے سبجیکٹ کے نہ ملیں تو آرٹس کا استاد بیالوجی کے پیپر بھی اُٹھا کے لے جاتا ہے۔ غیر موزوں لوگوں کو پیپر بھیج دیے جاتے ہیں جن کو ان مضامین پر عبور ہی حاصل نہیں ہوتا۔ پیپر مارکنگ ایسی ہوتی ہے کہ کیا بتاؤں۔ بغیر دیکھے مارکس دیئے جاتے ہیں۔ بس ٹِک مارک اور مارکس۔ آدھے گھنٹے میں سینکڑوں پرچوں کی مارکنگ ہوجاتی ہے۔
آٹھواں مرحلہ یو ایف ایم کمیٹی کا ہوتا ہے۔ پرچے چیک کیے جاتے ہیں، تو یو ایف ایم کیسوں کی باری آتی ہے۔ اس کی خاطر کمیٹیاں بنتی ہیں۔ نقل کے پرچوں کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہاں پھر لوگوں کے فون کالز اتے ہیں۔ یار میرے بیٹے کا پیپر ہے اسے فیل نہ کرنا۔ کمیٹی سفارش پہ کیس نہیں بناتا، یا تو معاف کیا جاتا ہے یا چھوٹا سا جرمانہ لگا کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔
نواں اور آخری مرحلہ رزلٹ کا ہوتا ہے جس میں بچہ ڈھیر سارے نمبرات لے کر اپنا، اپنے ادارے اور والدین کا نام “روشن” کر دیتا ہے۔
جناب والا! اس ساری کہانی کا مرکزی کردار کون ہے…؟
ایک استاد! پیپر استاد بناتا ہے، پھر اسے چیک کیا جاتا ہے، امتحانی ڈیوٹی میں استاد ہوتا ہے، انسپکٹر استاد دیتا ہے، پریکٹیکل ڈیوٹی استاد کرتا ہے، یو ایف ایم کمیٹی میں بھی استاد ہوتا ہے۔ یعنی ستیاناس کر دیا تعلیم کا، جو چائے کے ایک کپ اور چکن کے ایک پیس پر اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔ یہ بچے آگے جا کر ایٹا ٹیسٹ میں بیٹھتے ہیں، تو پتا لگ جاتا ہے۔ جب یہ بندے کسی پیشے کو جوائن کرتے ہیں، تو ان کی نااہلی اور نالائقی کے وجہ سے وہ محکمہ خسارے میں چلا جاتا ہیں۔
جناب والا! سوشل میڈیا پر لوگ اتنے زیادہ مارکس کا مذاق اڑاتے ہیں کہ “بچوں کے مارکس ڈالر کے طرح بڑھ رہے ہیں لیکن قابلیت روپے کی طرح گر رہی ہیں۔” “امسال بچوں کے مارکس بجلی بل کے طرح آئیں ہیں، کیا پیپر تو واپڈا والوں نے چیک نہیں کیے۔۔۔؟” اسی طرح ایک دوست نے پوسٹ کیا کہ “بورڈ کے پیپر دیکھے نہیں، تولے جاتے ہیں۔”
قارئین! اس پیشے سے وابستہ چند ایمان دار لوگ بھی ہیں، جن کو میں سلام پیش کرتا ہوں!
چیئرمین صاحب! ایک ایسے ماحول میں آپ کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے۔ تمام امتحانی عملے کو غیر جانب دار اور سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کےلیے عملی اقدامات کرنا آپ کا فرض ہے۔
تمام سکولز مالکان جو بچوں سے روٹی کے نام پر چندہ جمع کراتے ہیں، وہ ایک طرح سے بھتہ ہے، ان کے خلاف بہر صورت قانونی کاروائی کی جائے۔
ایک پیپر کی چیکنگ کے بعد اسے کم از کم ری ویو کرنے ایک اور ٹیم کے پاس بھیجنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے، تاکہ مارکنگ میں غلطی کی گنجائش کم سے کم ہو۔
اس طرح ایک تجویز یہ ہے کہ بورڈ عملے کا بچوں کے والدین کے ساتھ براہ راست رابطے کا انتظام کیا جائے۔
بورڈ میں ون ونڈوں سسٹم کو بچوں کےلیے آسان تر بنایا جائے۔
جناب والا! بحیثیت بورڈ چیئرمین آپ کو شکایت درج کرنے کےلیے براہِ راست کاؤنٹر کا انتظام کرنا ہوگا، تاکہ بچے اپنے شکایات کو فوری طور پر آپ تک پہنچا سکیں۔
امتحانی اور پریکٹیکل عملے کی تعیناتی میں اساتذہ کے بجائے پروفیسروں کو ترجیح دی جائے۔
اگر کوئی چیکر سوچ سمجھ کر ذیادہ مارکس دیتا ہیں، تو اس پر ہمیشہ کےلیے پیپر چیکنگ کی پابندی لگادی جائے۔
جناب والا! امید واثق ہے کہ آپ اپنے شاگرد کے ٹوٹے پھوٹے تجاویز پر اشتیاقی سے غور کریں گے اور اس اہم مسئلے سے بخوبی نمٹنے کی کوشش کریں گے۔
فقط، آپ کا خیر اندیش:
“اختر حسین ابدالی ۔”
_____________________________________
محترم قارئین! راقم کے اس مضمون کو 08 جولائی 2019ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بارشرفِ قبولیت بخش کرشائع کروایا تھا۔ لیکن آج دوسری بار تھوڑی ترمیم کے ساتھ دوبارہ ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
شیئرکریں: