گذشتہ شام فیس بُک پر اِک بھیانک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں راولپنڈی کا اِک نوجوان ریلوے ٹریک پر چل رہا ہے اور پیچھے سے ٹرین آرہی ہے۔ پھر کیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین کے انجن نے نوجوان کو ہٹ کیا اور نوجوان چند سیکنڈز میں ٹِک ٹاک کی نقلی دنیا سے موت کی حقیقی وادی میں اُتر گیا۔ انسان جب "ہارر موویز" دیکھتا ہے تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس فلم میں نظر آنے والے تمام سین نقلی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر انسان پھر بھی ڈر رہا ہوتا ہے اور فلم دیکھنے کے بعد چند لمحوں کے بعد وہ خوف دور ہو جاتا ہے۔ مگر یہاں جب سے مَیں نے مذکورہ ویڈیو دیکھی ہے، مجھ پر ابھی تک اک وحشت سی طاری ہے۔
ٹک ٹاک کےلیے ویڈیو بناتے ہوئے پاکستان میں حادثہ کا شکار ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سے حادثات وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ کراچی میں ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے اک سیکورٹی گارڈ اپنی ہی بندوق کی گولی کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا۔ جب کہ دوسرا نوجوان ٹریفک حادثہ کا شکار ہوگیا۔
پچھلے دنوں لاہور میں نوجواں اپنے دوست کے ہمراہ دفتر میں ٹک ٹاک بنا رہا تھا، کہ اچانک گولی اس کی آنکھ میں لگ گئی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اسی طرح خیبر پختون خوا کے علاقہ داؤد خیل میں بھی نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ نوجوان ہاتھ میں پستول تھامے ٹک ٹاک پر ویڈیو بنا رہا تھا کہ اچانک گولی چلنے سے جاں بحق ہو گیا۔
ایسا ہی ایک واقعہ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیش آیا تھا۔ جہاں ٹک ٹاک ویڈیو بنانے کے شوق نے 22 سالہ لڑکی کی جان لے لی تھی۔ لڑکی نے ویڈیو بناتے ہوئے ہاتھ میں پستول تھامی ہوئی تھی کہ اچانک گولی چل گئی۔
پاکستان شاید اکیلا ملک نہیں ہے کہ جہاں پر نوجوان ٹک ٹاک کے نشہ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ باقی ماندہ دنیا میں آئے روز کئی واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ جہاں پر کبھی سیلفی لیتے ہوئے کوئی اونچی عمارت یا پہاڑی سے گر گیا اور کہیں پر اپنے یا کسی دوست کے ہاتھوں اچانک اپنی ہی بندوق کی گولی لگنے سے موت کی منھ میں چلا گیا۔
نوجوان چند لمحات کےلیے صرف اتنا ہی سوچ لیں کہ کیسے اُن کی ماں نے 9 ماہ تک پیٹ میں رکھ کر برداشت کیا۔ پھر انتہائی تکلیف دہ لمحات برداشت کرکے ان کو جنم دیا۔ یاد رہے ہمیں اگر اک سوئی بھی چبھ جائے، تو چار پانچ دن تک اس کی تکلیف دل و دماغ میں محسوس ہوتی رہتی ہے۔ پھر یہی ماں اسی نوجوان کو سردی گرمی سے بچا کر، اپنی رات کی نیندوں کو برباد کرکے، بچے کا پیشاب و پاخانہ خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی ہے۔ پھر اسی بچے کو ماں اور باپ اپنی شبانہ روز کی محنت سے پروان چڑھاتے ہوئے اس امید کے ساتھ سنِ بلوغت تک پہنچاتے ہیں کہ ان کی اولاد والدین کا فخر و غرور کا سبب بنیں گے، اس سڑے ہوئے معاشرے کی اک کامیاب شخصیت بنیں گے اور پتا نہیں کہ کیسے کیسے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔؟
کیا والدین یہ محنت اس لیے کرتے ہے کہ یہ نام نہاد بچے دنیا کی سب سے عظیم نعمت جو کہ خالقِ کائنات انسان کو زندگی کی شکل میں دیتا ہے، کو ٹک ٹاک سٹار بننے کےلیے چند مصنوئی لائیکس اور فالوورز کی خاطر داؤ پر لگا دے۔
میں بندۀ نا چیز ان تمام نوجوانوں کے سامنے ہاتھ جوڑ خالقِ کائنات اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ان والدین کی آہوں، سسکیوں اور چیخ و پکار کا واسطہ دے رہا ہوں کہ اس مصنوعی شہرت کو حاصل کرنے کےلیے اپنی جانوں کو ضائع مت کریں۔ کیوں کہ یہ خود کشی کے مترادف ہے اور دینِ اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔
قارئین! بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں جب پشاور ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک ایپ پر پابندی لگائی تو اک کہرام اور طوفان بدتمیزی اُٹھ گیا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ایسے فیصلے نہ کریں جس سے شعبہ آئی ٹی کا نقصان ہو۔ یعنی موصوف کو انسانی جانوں سے زیادہ شعبہ آئی ٹی اور پیسہ عزیز ہے۔
اسی طرح فضاگٹ سے تعلق رکھنے والے نام نہاد سٹار نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہم ٹک ٹاک پر کررہے ہیں، وہ عین اسلامی اور پختون روایات کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے نوجوانوں سے سستی تفریح چھین لی۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے لوگ آگے آئیں اور مختلف فورمز پر اس بے ہودہ ایپ کے خلاف مہم چلائیں۔ میڈیا چینل بھی ٹک ٹاک جیسی ایپس کے خلاف بھرپور اور توانا آواز اُٹھائے۔
علماء رمضان میں منبر سے اس فحش ایپ کے خلاف آواز بغاوت بلند کریں اور عوام کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے منفی اثرات سے خبر دار کریں۔
سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں ٹک ٹاک کے منفی اثرات بارے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے تاکہ مزید انسانی جانوں کو بے وقت موت کی وادی میں جانے سے بچایا جاسکے۔
—————————————————-
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
warqeditorial@gmail.com