پاکستان کی ریاستی ساخت بنیادی طور پر ایک وفاقی ڈھانچے پر قائم ہے جس میں صوبوں کے مساوی حقوق اور اعتماد کو آئینی ضمانت حاصل ہے۔ تاہم، تاریخی طور پر ریاستی اداروں کی بعض پالیسیوں نے اس توازن کو متزلزل کیا ہے۔ انہی میں سب سے زیادہ متنازع منصوبہ کالاباغ ڈیم ہے جو محض ایک انجینئرنگ پروجیکٹ نہیں بل کہ سیاسی و آئینی بحران کی علامت بن چکا ہے۔ اس چھوٹی سی تحریر میں کالاباغ ڈیم کے سیاسی، قانونی اور ماحولیاتی پہلوؤں کا تجزیہ تاریخی اور دستوری پس منظر میں کیا جائے گا۔
قارئین، باچا خان بابا نے اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ اس اصول پر زور دیا کہ وفاق کی بقا صرف اس وقت ممکن ہے، جب چھوٹی اکائیاں اپنی خود مختاری اور وسائل پر بااختیار ہوں۔ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں:
اگر مرکز اکائیوں کے خدشات کو نظر انداز کرے، تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ (1)
اسی طرح رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں کالاباغ ڈیم کو "چھوٹی اکائیوں کے وسائل پر قبضے کی کوشش” قرار دیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں قومی اسمبلی میں اپنی ایک تقریر کے دوران میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ یہ منصوبہ پختون خوا کے لاکھوں خاندانوں کو بے گھر اور سندھ کے دریائی ماحولیاتی نظام کو تباہ کر دے گا۔ (2)
اسی تناظر میں رہبرِ تحریک (دوم) اسفندیار ولی خان نے کہا:
"پاکستان اور کالاباغ ڈیم میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، یہ دونوں ساتھ نہیں چل سکتے۔” (3)
قارئین، یہ قول دراصل اس تاریخی تنبیہ کا نچوڑ ہے کہ اگر وفاقی ریاست اکائیوں کے اجتماعی انکار کو رد کرے گی، تو خود اپنی بقا کو خطرے میں ڈالے گی۔ کیوں کہ کالاباغ ڈیم کے خلاف تینوں چھوٹی اکائیوں نے بارہا اپنی صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے قراردادیں منظور کیں، جو آئینی و جمہوری ریکارڈ کا حصہ ہیں:
بلوچستان اسمبلی نے 1990ء، 1993ء اور 2008ء میں قراردادوں کے ذریعے کالاباغ ڈیم کو بلوچستان کے آبی حقوق پر حملہ قرار دیا۔ (4)
سندھ اسمبلی نے 1988ء، 1994ء، 2003ء اور 2012ء میں قراردادیں منظور کر کے مؤقف اختیار کیا کہ یہ منصوبہ سندھ کی زراعت اور ماہی گیری کے لیے تباہ کن ہے۔ (5)
خیبر پختون خوا اسمبلی نے 1994ء، 1998ء اور 2006ء میں متفقہ قراردادیں منظور کر کے واضح کیا کہ نوشہرہ، مردان اور چارسدہ جیسے علاقے مستقل طور پر زیرِ آب آجائیں گے۔ (6)
یہ قراردادیں صرف سیاسی نعرے نہیں بل کہ آئینی تناظر میں binding political instruments ہیں، جو ریاستی پالیسی سازی کے لیے رہ نمائی فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان کے آئین کی شق 153 اور 154 کے تحت مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ متنازع بین الصوبائی معاملات طے کرے۔ ان دفعات کی روح یہ ہے کہ کسی بھی وفاقی منصوبے کے لیے صوبوں کی رضامندی اور مشاورت لازمی ہے۔
اگر تین صوبائی اسمبلیاں متفقہ طور پر کالاباغ ڈیم کو مسترد کر چکی ہیں، تو وفاق کے پاس اسے مسلط کرنے کا کوئی آئینی یا قانونی جواز نہیں رہتا۔ اس صورت میں اسے آگے بڑھانا آئین کے وفاقی توازن اور صوبوں کے مساوی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ (7)
تاریخی ریکارڈ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والی جماعتوں بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو ریاستی اداروں کی جانب سے دباؤ، قید و بند اور پروپیگنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، اے این پی نے اپنے موقف پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہ استقامت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تحریک محض وقتی سیاست نہیں بل کہ ایک قومی و عوامی مزاحمت تھی۔ (8)
کالاباغ ڈیم کی مخالفت صوبائی تعصب نہیں بل کہ آئینی، ماحولیاتی اور سائنسی حقائق پر مبنی ہے۔ اگر وفاق کو قائم رکھنا ہے، تو ریاست کو اپنی ضد ترک کر کے اکائیوں کے اجتماعی فیصلے کا احترام کرنا ہوگا۔ بہ صورتِ دیگر تاریخ یہی لکھے گی کہ کالاباغ ڈیم کی ضد نے پاکستان کی یکجہتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
حوالہ جات:
(1)۔ باچا خان، میری زندگی اور جدوجہد، ترجمہ: اجمل خٹک، پشاور، 1983ء۔
(2)۔ ولی خان، تقریر برائے قومی اسمبلی، Hansard ریکارڈ، 1992ء۔
(3)۔ اسفندیار ولی خان، اخباری انٹرویو، روزنامہ مشرق، 2006ء۔
(4)۔ بلوچستان اسمبلی قراردادیں، 1990، 1993، 2008 (بلوچستان اسمبلی آفیشل ریکارڈ)۔
(5)۔ سندھ اسمبلی قراردادیں، 1988، 1994، 2003، 2012 (Hansard سندھ اسمبلی)۔
(6)۔ خیبر پختون خوا اسمبلی قراردادیں، 1994، 1998، 2006 (KPK اسمبلی آرکائیو)۔
(7)۔ آئینِ پاکستان 1973ء، آرٹیکل 153، 154۔
(8)۔ اے این پی کا منشور اور پارٹی ریکارڈ، 1986-تاحال
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔