​سیاسی تاریخ میں کچھ بعض شخصیات کے کہے ہوئے جملے ایسے ہوتے ہیں جو محض الفاظ نہیں رہتے، بل کہ اپنے اندر پوری ایک تاریخ، نظریہ اور ایک تلخ سچائی سمیٹ لیتے ہیں۔ جس کی واضح مثال عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کا یہ قول ہے کہ "غداروں کی وجہ سے پاکستان کا ایک انچ علاقہ علاحدہ نہیں ہوا، جب کہ محبِ وطن لوگوں نے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا۔”
قارئین، یہ فقط ایک سیاسی بیان یا جملہ نہیں، بل کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے اس مرکزی تضاد پر ایک کاٹ دار تبصرہ ہے جو آج بھی ہماری قومی سیاست کا محور بنا ہوا ہے یعنی حب الوطنی اور غداری کے وہ سرکاری معیار جنہیں تاریخ نے بارہا غلط ثابت کیا ہے۔
​جب ولی خان نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی، تو اس کا منشور اور فلسفہ صرف دو الفاظ پر مبنی تھا کہ”جیو اور جینے دو”۔ یہ سادہ سا اصول دراصل برِصغیر کی اس گہری سیاسی دانش کی عکاسی کرتا تھا جو صدیوں کے تجربے کے بعد یہ سمجھ چکی تھی کہ تنوع اور اختلاف کو طاقت سے کچلنا ممکن نہیں۔ "جیو اور جینے دو” کا مطلب تھا کہ پاکستان نامی اس نئی ریاست میں ہر ثقافت، ہر زبان اور ہر اکائی کو اس کے آئینی، سیاسی اور معاشی حقوق کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔ یہ ایک حقیقی وفاق کا نظریہ تھا، جہاں مرکز صوبوں کا حاکم نہیں بل کہ ان کی رضا اور شراکت کا امین ہوتا ہے۔
​لیکن بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد ریاست کی سمت اس فلسفے کے بالکل برعکس طے کی گئی۔ ایک مضبوط مرکز، ایک زبان اور ایک ثقافت کا تصور مسلط کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے ان اکائیوں میں بے چینی پیدا کی جو اپنی الگ شناخت رکھتی تھیں۔ خاص طور پر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں، جہاں کی اکثریت نے اپنی زبان اور سیاسی مینڈیٹ کا احترام مانگا، تو ان پر ‘غداری’ اور ‘ملک دشمنی’ کے فتوے لگائے گئے۔
​یہ وہ تاریخی پس منظر ہے جس میں ولی خان کا مذکورہ بالا قول ایک تاریخی سچائی بن کر اُبھرتا ہے۔ ولی خان اور ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) مغربی پاکستان کی ان چند آوازوں میں سے تھیں جو شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کو غداری قرار دینے کی بہ جائے اسے ایک سیاسی مسئلہ سمجھتی تھیں اور مذاکرات کے ذریعے حل پر زور دیتی تھیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ بنگالیوں کو ان کا جمہوری حق نہ دینا "جیو اور جینے دو” کے اصول کی نفی ہے اور اس کے نتائج ملک کے لیے تباہ کن ہوں گے۔
​پھر دنیا نے دیکھا کہ جن لوگوں نے خود کو حب الوطنی کے سب سے بڑے ٹھیکے دار کے طور پر پیش کیا، جنہوں نے بنگالیوں کی جمہوری آواز کو طاقت سے دبانے کا فیصلہ کیا، انہی کی پالیسیوں کے نتیجے میں 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا۔ نام نہاد "محب وطنوں” نے آئین اور جمہوریت کو پامال کرکے آدھے سے زیادہ ملک گنوا دیا۔ اس کے برعکس، ولی خان جیسے سیاست دان جن پر پوری زندگی ایجنٹ اور غدار ہونے کے الزامات لگتے رہے، ان کی سیاست سے ملک کا ایک انچ بھی جدا نہ ہوا۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ اصل غداری عوام کے حقوق اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا ہے، نہ کہ ان حقوق کا مطالبہ کرنا۔
قارئین، ​ولی خان کا مقدمہ بالکل سادہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کا ایک گل دستہ ہے۔ اس گل دستے کی خوب صورتی اسی میں ہے کہ ہر پھول کو اس کے اپنے رنگ اور خوشبو کے ساتھ کھلنے دیا جائے۔ اگر آپ تمام پھولوں کو ایک ہی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں گے، تو گل دستہ بکھر جائے گا۔ 1971ء کا سانحہ اسی ریاستی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا جسے ولی خان نے بروقت بھانپ لیا تھا۔
​آج بھی جب ہم پاکستان کے معروضی حالات کو دیکھتے ہیں، تو ولی خان کے افکار کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ آج بھی جب بلوچستان یا دیگر چھوٹے صوبوں سے حقوق کی آواز اُٹھتی ہے، تو اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے کا رجحان غالب ہے۔ آج بھی اختلافِ رائے رکھنے والوں پر ‘غداری’ کی چھاپ لگانا سب سے آسان حربہ ہے۔
​قارئین، حاصلِ کلام یہ ہے کہ خان عبدالولی خان کا فلسفہ "جیو اور جینے دو” کوئی باغیانہ نعرہ نہیں بلکہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کا ضامن اصول ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ملک نظریاتی سرحدوں کی بہ جائے انصاف اور مساوات کی بنیادوں پر متحد رہتے ہیں۔ ولی خان کا تاریخی تجزیہ آج بھی ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ ریاستیں حب الوطنی کے کھوکھلے نعروں سے نہیں، بل کہ اپنے شہریوں کو ان کے آئینی حقوق دے کر مضبوط ہوتی ہیں۔ اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا، تو شاید مستقبل میں کسی کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ ‘محب وطنوں’ نے ملک کا کوئی حصہ گنوا دیا۔
_____________________________

ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

شیئرکریں: