جب ہم کسی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا نہیں، تو ہم ان باتوں سے اندازہ لگاتے ہیں کہ کہیں وہ نظریں تو نہیں چرا رہا یا پھر نروس یا پریشان تو نظر نہیں آ رہا…؟
قارئین، عام فہم اور سادہ الفاظ میں حقیقت کے خلاف بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں یعنی سچ موجود ہوتا ہے اور جھوٹ بنائے جا تے ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کے لیے اپنے فطری ردِ عمل پر بھروسہ کریں کیوں کہ یہ صلاحیت آپ کے لاشعور میں پنہاں ہوتی ہے۔ اسی طرح نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ ہم جھوٹوں کو اگر پہچاننا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے پہلے ردِ عمل پر بھروسہ کرنا چاہیے نہ کہ غور و خوض کے بعد اس سے متعلق نتیجہ اخذ کیا جائے۔
قارئین، تاریخ کسی کے ذاتی خیالات ہونے کے بہ جائے وقوع پذیر واقعات کو مستند مآخذ کی بنیاد پر تحریر کرنے کا نام ہے۔ کسی حقیقت میں اپنی تشریح و تعبیر کو سچ کا نام دینا کسی کی ذاتی رائے تو ہوسکتی ہے مگر سند کے درجے میں وہ قابلِ استدلال نہیں ہوتی۔ جھوٹا آدمی جب سچ بولنے لگے، تو سمجھ لیجیے کہ سچائی خطرے میں ہے۔ سچ تو وہی ہوتا ہے جو سچے انسان کی زبان سے ادا ہوتا ہے۔ جھوٹے انسان کا سچ منافقت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ؛ سچے انسان کے لیے جھوٹ میں کوئی اچھا مقصد ہوتا ہے لیکن جھوٹے انسان کا سچ صرف آگ لگانے کے لیے ہوتا ہے۔”
در اصل انسان کا کردار اُس کے اندازِ فکر پر مبنی ہوتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، چند سال پیشتر ایک گم نام لکھاری کی پختونوں کے ایک صدی کے قومی تاریخ کے حوالے سے جھوٹ اور حقائق کو من مانی ملمع تشریحات ایک متنازع کتاب "فریب ناتمام” پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے منظرِ عام پر آگئی۔ اس کتاب کو دل چسپی سے پڑھنے والے عموماً تین قسم کے لوگ تھے:
☆ ایک پختونوں کے قومی تاریخ و تحریک سے باخبر وہ پختون تھے جو اپنے ماضی کے تمام واقعات کے حقائق سے پوری طرح آگاہ تھے، وہ صوفی جمعہ خان کے قومی تحریک میں کردار اور مرتبہ سے بھی آگاہ تھے اور صوفی کے پیچھے کھڑی اس ذہنیت کو بھی بہ خوبی جانتے تھے جن کی شہ پر یہ سارا سکرپٹ تیار ہوا تھا۔ یہ لوگ پختون سوسائٹی میں ہر جگہ پیھلے ہوئے ہیں اور آج تک بغیر کسی تحریری جواب کے بھی ان کے بیانیے نے صوفی کے دجل و فریب کو ہر جگہ آشکارا کیا تھا۔
☆ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا تھا جن کو قوم پرستی کی سیاست سے ہمیشہ چڑھ رہتی ہے اور ہمیشہ ایسے موقع کی تھاک میں رہتے ہیں کہ وہ کس طرح پختونوں کے قومی تاریخ اور قوم پرست سیاست پر کوئی اعتراض کر بیٹھے۔ یہ کتاب ان سیاسی بونوں کےلیے کسی ‘انجیلِ یوحنا’ سے کم نہ تھی اور وہ بڑے فخریہ انداز میں اس کتاب کی آڑ میں ہرجگہ قوم پرست سیاست کا تمسخر اُڑاتے تھے۔
☆ تیسرا طبقہ ان خفیہ اور نادیدہ قوتوں کا تھا جنہوں نے پچھلے چالیس برسوں سے پختون وطن میں کشت و خون کا بازار گرم رکھا ہے اور ان کے بیانیے کے آگے سب سے بڑی مزاحم قوت پختون قوم پرست ہیں، وہ اپنے سامنے اس قومی حقیقی رکاوٹ کو تھوڑنے اور کم زور کرنے کی کوششوں میں اس کتاب کو ہر جگہ پہنچانے اور اسے شہرت دینے کےلیے ہر حوالے سے متحرک رہتے تھے۔
قارئین، یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مذکورہ کتاب سو فی صد ذاتی بغض و عناد پر لکھی گئی تھی اور پھر اس لکھاری کو مستقل طور پر مذموم مقاصد کےلیے استعمال کیا گیا۔ جن لوگوں نے وہ کتاب پڑھی ہے، تو وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکیں گے کہ ایک سچ کی آڑ میں اس کے ساتھ نناوے جھوٹ مکس کئے گئے ہیں۔ وہ ایک سچ بھی ادھورا اور بغض معاویہ میں لکھا گیا ہے۔ کسی قوم کی قومی تاریخ ہمیشہ نشیب و فراز سے گزرتی ہے مگر اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ تمام کے تمام قومی تحریک کو آپ مسترد کردیں یا اس پورے دور اور اس کے کرداروں کا آپ تمسخر اُڑا لیں۔ اختلافِ نظر اور اختلافِ رائے کس جگہ نہیں ہوتی…؟ کسی سیاسی فیصلے کو کرتے وقت غلطیوں کی گنجائش واحتمال کہاں پر نہیں ہوتی…؟ کسی قوم کی پوری تاریخ کا تمسخر اُڑانا یا ان کے قومی کردار کو سو فی صد مسترد کرنا درحقیقت اس قوم کی استھزا کی مترادف ہوتا ہے۔
اس لکھاری کے کردار کے حوالے سے مرحوم سالار احمد علی کہا کرتے تھے کہ؛ ہم جب سب کابل میں ہوتے تھے، تو یہ بندہ کابل میں اجمل خٹک کا منشی ہوا کرتا تھا۔ اس کا کوئی سیاسی کردار و اہمیت نہیں تھا۔”
جب سالار احمد علی نے یہ کتاب پڑھی، تو اس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ؛ اس بندے نے تاریخ کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔ اس کا جواب کتابی صورت میں ضرور میں لکھوں گا۔” مگر پھر وہ بیمار ہوئے اور یہ کام ادھورا رہ گیا۔ میرے خیال میں جھوٹ تعصب اور بدنیتی کی تحریر اپنا جواب خود ہوتی ہے، اسے لاجواب کرنے کے لیے جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اس کتاب کو ریاستی سرپرستی میں چھاپنے، اسے ہر جگہ پہنچانے اور پھر ایک ملکی اخبار میں باقاعدگی کے ساتھ اس کی اشاعت کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی اس کتاب کے بڑے پیمانے پر تشہیر ریاستی وسائل کی بنیاد پر اور اس کے لکھاری کو بڑے پیمانے پر مالی فوائد پہنچائے گئے اور پھر وہ مٹھاس اس کےلیے اس بات کی محرک بنی کہ وہ مزید جھوٹ کے پنڈورہ بکس دیگر کتابوں کی شکل میں کھولے۔ اس لیے وقت کا تقاضا تھا کہ اس کتاب کے جواب میں قوم پرست دانشور اس کا مناسب تحریری جواب دیں دے۔ یوں اس جھوٹے "فریب ناتمام” کے جواب میں "فریب تمام” ادیب اور تنقید نگار ڈاکٹر فیصل فاران صاحب نے لکھ کر ایک بڑا سوال حل کیا ہے۔ اب وہ لوگ جنہوں نے اس جھوٹے کتاب کو پڑھا تھا اور اس کتاب کے مندرجات ان کے فکری تشکیک کا باعث بنے تھے، اب ان کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو بھی پڑھیے ساتھ ہی وہ ملکی اخبار جو ہر ہفتہ اس کتاب کو اپنے پیج پر شائع کرنے کا اہتمام کرتے تھے، وہ بھی اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرتے ہوئے اب اس کتاب کے اشاعت کا بھی اہتمام کیا کریں۔ اس ملک میں ہمیشہ دو رنگی کا راج رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انٹلیجنس ایجنسی "ایم آئی” اور "آئی ایس آئی” کے ایک سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل اسد درانی نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے ماضی کی کوتاہیوں سے توبہ تائب ہو کے حقائق کی روشنی میں پاکستان کے خارجہ، داخلہ اور دفاعی پالیسیوں کے ماضی کے غلطیوں کو آشکارا کیا تھا۔ اب اسد درانی کو ملکی عدالتوں میں ‘ملک دشمن’ اور ‘انڈین ایجنٹ’ کہا جارہا ہے جب کہ پختونوں کے قومی تحریک پر تہمتیں لگانے والے دو ٹکے کے ایک مصنوعی لکھاری کو سرکاری وسائل کی سرپرستی میں ملک کا ایک بہت بڑا دانشور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
___________________________
قارئین، یہ تحریر مولانا خان زیب شہید کی ہے جسے تھوڑی سی انحراف کے ساتھ قارئین کےلیے ‘ابدالی ڈاٹ کام’ پر اَپ لوڈ کیا جارہا ہے۔
شیئرکریں: