ہر سال کی طرح اس سال بھی بانیِ خدائی خدمت گار تحریک، فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی 37 ویں اور رہ برِ تحریک خان عبدالولی خان کی 19ویں برسی پورے شان و شوکت سے ملک بھر کے مختلف علاقوں میں منائی جارہی ہے، جس کا واحد مقصد لوگوں میں باچا خان اور ولی خان کی افکار کی ترویج کرنا اور نسلِ نو کو ان عظیم شخصیات کی سیاسی زندگی، مزاحمت اور جد و جہد سے روشناس کرانا ہے۔ بہ قولِ شاعر
چی دَ جبر تورتمونو کے چراغ دے
چی ئی ایخے دَ فیرنگ پہ ٹٹر داغ دے
دَ پختون سیاست بلہ لارہ نشتہ
ھشنغر دے، چارسدہ دہ، ولی باغ دے
اس سلسلے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے زیرِ اہتمام ملک بھر میں "Bacha Khan Month 2025” کے عنوان سے تقریبات کا باقاعدہ آغاز 20 جنوری، پیر کے روز سے باچا خان مرکز پشاور سے ہوچکا ہے، جو 23 فروری 2025ء تک جاری رہیں گی۔ اس ضمن میں 21 جنوری سے پختون خوا کے مختلف اضلاع میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں، جس میں پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین شرکت کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں 26 جنوری کو کراچی میں ایک عظیم الشان جلسۂ عام کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان نے شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ 22 اور 23 فروری کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں مختلف مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ باچا خان اور ولی خان کی سیاسی زندگی اور جد و جہد پر روشنی ڈالیں گے۔ جب کہ 14 فروری کو لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسۂ عام کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پارٹی کے تمام مرکزی قائدین شریک ہوں گے۔
باچا خانہ!
جنتونہ دی نصیب شہ
ستا د اوہ دیرشم تلین پہ ورز ھم
ستا د فکر او سوچ بچی
د خپل ژوند او مرگ پہ آخری برید ولاڑ دی
یوازی ستا عملی ژوند او جدوجہد جاڑی
ھاغہ پختو چی تا بہ وئیل
د قام نہ چی ژبہ ورکہ شی نو ورک شی
کوم قام تہ چی ژبہ سپکہ شی نو سپک شی
نن ستا د قام بچی ھم پختو وائی
خو فخر پہ نورو ژبو کوی
د پختو لیکل، لوستل او وئیل نہ خوخوی
نو گنی ورک او سپک بہ نہ گرزی!
د بیٹ نیکہ دعا قبولہ شوہ
پختانہ ڈیر شو خو قامی شعور تری ورک دے
دَ خوشحال خٹک ھاغہ گیلہ اوس ھم کیگی چی
چا ئی پلو د مخہ وا نہ غیستہ
پختو لا ھاغسی بکرہ پرتہ دہ
قارئین، عوامی نیشنل پارٹی برطانیہ کے صدر محفوظ جان باچا خان بابا کی زندگی کی آخری شام یعنی 19 جنوری 1988ء سے لے کر 20 جنوری کو اُن کی وفات کے دن، 21 جنوری کو نمازِ جنازہ، 22 جنوری کو جلال آباد تک کے سفر اور "شیشم باغ” میں تدفین تک کے حالات اور واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ منگل 19 جنوری 1988ء کی ایک شدید سرد، نہایت بھاری، اُداس اور افسردہ شام تھی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے انتہائی نگہ داشت کے وارڈ (ICU) میں جہاں فخرِ افغان باچا خان کومہ کی حالت میں پڑے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، ہم رہ برِ تحریک خان عبدالولی خان سمیت پارٹی کے دیگر رہ نماؤں جن میں محمد افضل خان لالا، عبدالطیف آفریدی (شہید)، عبد الخالق خان (جج صاحب)، حاجی غلام احمد بلور، سینیٹر حاجی عدیل (مرحوم)، شہید بشیر احمد بلور، اُس وقت پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر غازی میاں افتخار حسین، صوبائی صدر صدر الدین مروت (مرحوم)، حسین شاہ خان یوسف زئی، فرید طوفان، ارباب ظاہر (شہید)، حمید الرحمان لالا، جہان زیب صدیق، ارباب ہمایون خان، ارباب سیف الرحمان خان، ارباب عبدالرحمان خان کافور ڈھیرئی، مجید خان لالا طورو اور دلبر خان ٹکر (کاکا) شامل تھے، کے ساتھ پورا دن گزارنے کے بعد جب شام ڈھلے ایک دوسرے سے رخصت ہونے لگے، تو سب کے چہروں پر مایوسی، اُداسی اور خوف طاری تھا۔ ہر طرف افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ سب مشران ایک دوسرے کو سوالیہ انداز میں دیکھ رہے تھے، مگر سوال کرنے کی جرات اور جواب کی ہمت شاید کسی میں بھی نہیں تھی۔ کیوں کہ اُس وقت ولی خان بھی نہایت سنجیدہ اور افسردہ دکھائی دے رہے تھے۔ رنجیدگی اُن کی چہرے سے ٹپک رہی تھی۔
قارئین، وہاں موجود لوگوں میں، مَیں سب سے چھوٹا اور کم عمر تھا۔ لہٰذا میرے لیے پارٹی رہ نماؤں کی یہ اُداسی، رنج بھرے چہرے اور بدلے ہوئے تیور بہت کرب ناک تھے۔ کیوں کہ مَیں نے پارٹی کی تمام تر قیادت خصوصاً ولی خان کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا تھا، مگر آج کا ماحول صریحاً اس کے برخلاف تھا۔ اس تمام تر صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے اُس وقت مجھ پر بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوئی کہ پارٹی قائدین کے یہ مضطرب رویے بے وجہ نہیں تھے۔ یقینا اُن کو ڈاکٹروں نے ضرور کوئی ایسی بات بتائی ہوگی جو اُن کی اُداسی کی وجہ بن رہی ہے۔
قارئین، مَیں اپنے اندر کی غیر یقینی کیفیت کو زیادہ دیر برداشت نہ کرسکا اور رخصت ہوتے ہوئے دلبر خان کاکا کی طرف لپکا اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ کاکا! سچ بتائیے، بابا کو کچھ ہوا تو نہیں … سب ٹھیک تو ہے نا … اور آپ سب لوگ اس قدر پریشان کیوں ہیں…؟
کاکا اپنی روشن آنکھیں پھاڑ کر مجھے گھورنے لگے، مگر کوئی جواب دیے بغیر خاموش رہ گئے۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا، تو اس مرتبہ اگر چہ ذرا گستاخی سے اُن کا ہاتھ جھٹک کر سیدھا سوال پوچھا کہ کاکا! آپ خاموش کیوں ہیں … آپ بتاتے کیوں نہیں … سچ بتائیے، کیا ہم باچا خان کو دوبارہ دیکھ پائیں گے یا نہیں…؟ میرے ان سوالوں پر کاکا سکتے میں آگئے، منھ سے کچھ نہ کَہ پائے، مگر اُن کے کانپتے ہوئے ہاتھ، لرزتے ہونٹ اور آنکھوں سے رواں آنسوؤں کی نہ رُکنے والی لڑی میں میرے سارے سوالوں کا جواب موجود تھا۔
لیکن شاید مَیں اپنی کم عمری اور لا اُبالی پن کے سبب اَب بھی یہ سمجھ رہا تھا کہ بابا ضرور ٹھیک ہوں گے اور ہم اُن کے ساتھ پھر سے جلسے جلوسوں میں نعرے لگاتے پھریں گے، مگر حالات اور موقع پر موجود مشران کو دیکھتے ہوئے مَیں بھانپ گیا کہ آج کی رات کچھ اَن ہونی ہونے جارہی ہے۔
قارئین، ولی خان جب رخصت ہوئے، تو خدائی خدمت گاروں کا ایک دستہ، سالار رامبیل خان کی قیادت میں، جو دن رات وہاں ہسپتال میں قائم کیمپ میں موجود رہتا، کے علاوہ ہم سب رخصت ہونے لگے۔ مجھے اور ارباب ظاہر شہید کو پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری ارباب ہمایوں خان اپنے گھر تہکال بالا لے آئے۔ راستے میں، مَیں نے ارباب ہمایوں سے بھی وہی سوال کیا کہ کیا باچا خان کی حالت واقعی بہت خراب ہے؟ انھوں نے میری طرف دیکھے بغیر گاڑی کے شیشے کی طرف منھ رکھے اثبات میں سر ہلایا۔ جس کے بعد مجھ میں ان سے مزید سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ یوں گھر پہنچنے تک گاڑی میں مکمل سکوت چھائی رہی۔
قارئین، 20 جنوری بہ روزِ بدھ باچا خان نے اپنی جاں، جانِ آفریں کے حوالے کر کے داعئی اجل کو لبیک کَہ گئے۔ (انا اللہ وانا الیہ راجعون۔)
چوں کہ مَیں اور ارباب ظاہر رات دیر تک باچا خان بابا کی زندگی اور جد و جہد اور کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کے پیشِ نظر باتیں کرتے ہوئے دیر سے سوئے تھے، لہٰذا علی الصباح جب ہم ابھی سو رہے تھے کہ اسی اثنا میں ارباب ہمایون نے آکر ہمارے کمرے کے دروازے پر زور سے دستک دیتے ہوئے ہمیں جگایا۔ جیسے ہی ارباب ظاہر نے دروازہ کھولا، تو ہمایون خان نے یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ ’’ہلکانو! پاسئی باچا خان پہ حق ورسیدو۔‘‘ یعنی لڑکو! اُٹھو، باچا خان انتقال کرگئے۔‘‘ یوں ہمیں چند ضروری کام حوالے کرتے ہوئے موصوف خود ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ سنتے ہی ہمارے نیم تاریک کمرے میں مکمل خاموشی چھاگئی۔ مجھے اور ارباب ظاہر میں ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ہمارا ذہن ماوف سا ہوگیا۔ کچھ وقت کے لیے ایسا لگا، جیسے وقت رُک گیا ہو اور زندگی جامد ہوگئی ہو۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے کمرے کی بتی جلائی، تو دیکھا کہ ارباب ظاہر کمرے کے ایک کونے میں دو زانوں بیٹھے اپنے چہرے کو ہاتھوں میں لیے ہچکیاں لیتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے۔ وہ لمحے اتنے کرب ناک تھے کہ مجھ میں ان کو دلاسہ دینے کی ہمت تک نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی اُٹھ کر اپنے آنسوؤں پونچھتے ہوئے مجھے کہا کہ ’’پاسہ چی زو!‘‘یعنی اُٹھو چلتے ہیں!
ہم ارباب ہمایوں خان کے ہجرے سے ارباب الطاف کے گھر گئے، جہاں سے پارٹی کے جھنڈے، کچھ بینرز اور ٹوپیاں اُٹھاتے ہوئے ہسپتال کی طرف چل پڑے۔ اندیش شمس القمر کے بہ قول:
د تکی توری شپی سفر دے سہ تابیا پکار دہ
شابئی لالٹین راوڑئی دی لاری لہ رنڑا پکار دہ
زمونگ نخہ د دی قام د پختنو د پختو
یوہ جھنڈا خو تکہ سرہ د خپل بابا پکار دہ
تہکال بالا سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال تک چند میلوں کا سفر آج سیکڑوں میل کا لگ رہا تھا۔ کوئی گاڑی سامنے آتی، تو ایسے لگتا جیسے راستے میں پہاڑ آگیا ہو۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ جگہ جگہ باچا خان کی وفات کے ضمیمے بانٹے جا رہے تھے۔ لوگ ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ضمیمے پڑھ رہے تھے۔ کو ئی ریڈیو کان سے لگائے رکھا تھا، تو کوئی ٹیلی وِژن کے گرد جمع تھا۔ کیوں کہ پشاور غم و اندوہ میں ڈوب گیا تھا۔ بہ ہر حال خدا خدا کرکے ہم ہسپتال پہنچ گئے۔ پارٹی کے کارکن سرخ وردی اور ٹوپیاں پہنے جوق در جوق ہسپتال پہنچ رہے تھے۔ سب لوگ ایک دوسرے کو گلے لگا لگا کر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ ہر طرف کہرام مچا ہوا تھا۔ پارٹی کیمپ میں موجود بین کرتی ہوئی باچا خان کے خاندان کی خواتین کی آہ و فغاں اور بیگم نسیم ولی خان کے رونے کی آوازیں دل دہلا رہی تھیں۔ باچا خان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ اخبارات نے خصوصی ضمیمے چھاپ کر ملک بھر میں پھیلا دیے تھے۔ ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکہ، آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو کابل معمول کے نشریات روک کر باچا خان کی وفات کے حوالے سے خصوصی بلیٹن چلا رہے تھے۔
قارئین، ہسپتال کے اندر بابا کو غسل دینے، اُن کو کفن دینے اور اُن کے جسدِ خاکی کو تابوت میں ڈال کر باہر لانے تک کا مرحلہ خاصا صبر آزما تھا۔ کیوں کہ لوگ بابا کے آخری دیدار کے لیے بے تاب تھے۔ اس دوران میں ولی خان، حاجی غلام احمد بلور، بشیر احمد بلور، عبد الخالق خان جج صاحب، افضل خان لالا اور اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہم راہ صبر و استقامت کے پہاڑ بنے کھڑے رہے اور سکون کے ساتھ لوگوں سے تعزیت لینے میں مصروف تھے۔ لوگ ایک ایک کر کے ان سے لپٹ کر دھاڑے مارتے ہوئے بابا کی رحلت پر اپنے غم اور رنجیدگی کا اظہار کر رہے تھے۔ ہم لوگوں کو قطار میں کھڑے ہو کر ولی خان سے ملنے کی استدعا کر رہے تھے۔ لوگوں کی دل دھلا دینے والی چیخ و پکار سے میرا کلیجا باہر آرہا تھا۔ کیوں کہ جب میری نظر ولی خان پر پڑتی، تو مجھے محسوس ہونے لگتا کہ میرے اندر کا ضبط اب ٹوٹنے کو ہے اور میرے صبر و برداشت کا بندھن اب ٹوٹنے والا ہے۔ لہٰذا میں سعیِ بسیار کے باوجود اپنے آپ کو روک نہ پایا اور جا کر ولی خان سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رو دیا۔ ولی خان نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا کہ ’’نہ بچے، ستا سو بابا مڑ نہ دے، ستا سو بابا بہ تل ژوندے وی!‘‘ یعنی بابا مرے نہیں، وہ ہمارے لیے ہمیشہ زندہ رہیں گے!‘‘ خوشحال خان خٹک کے بقول:
مڑ ھغہ وی چی نہ ئی نوم نہ ئی نشان وی
تل تر تلہ پہ خہ نوم پائی خاغلی
اس دوران میں فضل الرحمان لالا (صدر سٹی ڈسٹرکٹ پشاور) نے آگے بڑھ کر مجھے ولی خان سے جدا کرتے ہوئے دلاسہ دیا۔ پھر شہید بشیر بلور، حمید الرحمان لالا (فقیر آباد) اور فرید طوفان، ولی خان کو بغل گیر ہوکر ایسے روئے کہ آسمان لرز اُٹھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں موجود کوئی ایک ایسی آنکھ نہ تھی جو اشک بار نہ تھی۔
قارئین، اسی اثنا میں باچا خان بابا کے جسدِ خاکی کو ایک خصوصی تابوت میں رکھ کر ہسپتال سے باہر نکالا گیا۔ تابوت کے اوپر پھولوں کے بڑے بڑے گل دستے رکھ دیے گئے تھے۔ تابوت کو ایمبولنس میں رکھنے سے پہلے وہاں موجود لوگوں کو بابا کا آخری دیدار کرایا گیا۔ سفید کفن میں لپٹے بابا کا سرخ و سفید چہرہ خوب صورت نظر آرہا تھا۔ راقم نے تادمِ تحریر اپنی زندگی میں کسی میت کا اتنا خوب صورت، پُر نور اور دمکتا چہرہ نہیں دیکھا۔
پھر اس تابوت کو ایمبولنس میں رکھ کر اندر شہر کی طرف کھلنے والے گیٹ سے ہسپتال کے باہر والی سڑک پر لایا گیا۔ پارٹی قائدین، ہزاروں کارکن اور باچا خان کے وہ پرستار جو اُس وقت تک ہسپتال پہنچ چکے تھے، ایمبولنس کے ساتھ کننگھم پارک کی طرف روانہ ہوئے۔ ولی خان خود اپنے عظیم باپ کے جنازے کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جلوس کے آگے آگے چل رہے تھے۔ بابا کے جنازے کا یہ جلوس ایک عجیب منظر پیش کر رہا تھا۔ لوگ فرطِ جذبات سے زار و قطار رو رہے تھے، جب کہ پی ایس ایف کے نوجوان شدید نعرہ بازی کر رہے تھے ۔ آہوں اور سسکیوں کے درمیان پی ایس ایف کے نوجوانوں کے یہ فلک شگاف نعرے ’’جب تک سورج چاند رہے گا، بابا تیرا نام رہے گا!‘‘جب قلعہ بالا حصار کی بلند و بالا دیواروں سے ٹکراتے ہوئے گونج کر فضا میں واپس آکر بکھرتے، تو ایک عجیب سماں باندھ رہے تھے۔ جلوس آہستہ آہستہ کننگھم پارک کی جانب رینگ رہا تھا۔ یوں ہم نے دو فرلانگ کا یہ فاصلہ پورے دو گھنٹے میں طے کیا۔
کننگھم پارک میں باچا خان کا جسدِ خاکی آخری دیدار کے لیے رکھ دیا گیا۔ ساتھ ہی ایک بڑا شامیانہ لگا دیا گیا، جس میں ولی خان پارٹی قائدین کے ساتھ بیٹھ کر تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں سے مل رہے تھے۔
اُس وقت ولی خان کی عمر تقریباً 71 برس تھی، مگر وہ برابر کھڑے ہوکر ایک ایک بندے کے ساتھ فرداً فرداً مل رہے تھے۔ اسی طرح ان سے چند گز کے فاصلے پر خواتین کے لیے بھی ایک الگ شامیانہ لگا دیا گیا تھا، جہاں بیگم نسیم ولی خان، خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ بیٹھی تعزیت کے لیے آنے والی خواتین سے مل رہی تھیں۔ غم و اندوہ کے اس ماحول میں جب کبھی بین کرتی ہوئی خواتین کی آوازیں اُٹھتیں، تو ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی۔
قارئین، موسم سرد اور مطلع آبر آلود تھا، مگر بارش ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ پشاور میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند کر دیے گئے تھے۔ یوں تمام راستے کننگھم پارک کی طرف آنے لگے۔ ملک بھر سے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کے دور دراز شہروں اور گاوؤں سے لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا اور شام ہوتے ہی پورا کننگھم پارک لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ چوں کہ ہمیں باچا خان کے جسدِ خاکی کے ساتھ کننگھم پارک میں دو دن اور دو راتیں گزارنا تھے، لہٰذا پارک کے اندر سیکورٹی اور دیگر انتظامات کے علاوہ کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال سے نمٹنے اور مختلف فرائض کی انجام دہی کے لیے پی ایس ایف کے مرکزی صدر میاں افتخار حسین، صوبائی صدر صدرالدین مروت اور صوبائی جنرل سیکرٹری حسین شاہ یوسف زئی نے کننگھم پارک کے ایک کونے میں پختون زلمی کے کمانڈروں کے ساتھ پختون ایس ایف کے ساتھیوں کا ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں پی ایس ایف کے قائدین نے مختلف ٹیمیں تشکیل دیں اور ہر ٹیم کو مختلف ڈیوٹیاں تفویض کرتے ہوئے ان کو پختون زلمی کے سالاروں کے زیرِ کمان کام کرنے کی ہدایت کی۔ میری خوش قسمتی رہی کہ میری شاہ حسین بنگش (سابق صدر اسلامیہ کالج) اور شہزاد داوڑ (سابق صدر گورنمنٹ کالج پشاور) کی ڈیوٹی بابا کے تابوت کے ساتھ ہی لگ گئی۔
ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ بارش اور سردی کے باعث لوگوں کے رش کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟ کیوں کہ ملک بھر سے باچا خان کے پرستار قافلوں کی صورت میں پشاور آنا شروع ہوچکے تھے۔
پارک کے چاروں طرف سے بابا کے آخری دیدار کے لیے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں ہمارے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھیں۔ ہم نے چاروں اطراف سے بنے ہوئے قطاروں کو بابا کے تابوت تک پہنچنے سے پہلے ایک قطار میں مرکوز کرنا تھا اور پھر ان کو وہاں سے نکالنا بھی تھا، تاکہ رش اور دھکم پیل کے باعث کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال کو پیش آنے سے روکا جا سکے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام تھا۔
اس پہ مستزاد یہ کہ سہ پہر کے وقت پارٹی کے مرکزی پریس سیکرٹری قیصر خان لالا نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تھوڑی دیر بعد ہندوستان کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی، باچا خان کی وفات پر تعزیت اور آخری دیدار کے لیے بہ نفسِ نفیس کننگھم پارک تشریف لا رہے ہیں۔
ہمارے لیے یہ خبر بہت اچانک اور غیر متوقع تھی۔ کیوں کہ پارٹی رہ نماؤں میں بھی کم ہی لوگوں کو معلوم تھا کہ راجیو گاندھی پشاور پہنچنے والے ہیں مگر قیصر خان لالا نے بھرے مجمع میں یہ خبر بریک کر دی۔ ’’پختون زلمی‘‘ اور پارٹی رہ نماؤں کی دوڑیں لگ گئیں۔ سب کو سیکورٹی کی پڑگئی۔ کیوں کہ اتنے بڑے مجمع اور ایسے جذباتی ماحول میں اتنی بڑی اور اہم شخصیت کی سیکورٹی ایک بڑے چیلنج سے کم نہ تھا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ راجیو گاندھی اپنے سرکاری دورے پر امریکہ کے لیے محوِ پرواز تھے کہ ان کو باچا خان کے انتقال کی اطلاع ملی، تو اُنھوں نے پرواز کا رُخ تبدیل کرکے نیو یارک سے پشاور کی طرف موڑ دیا اور انڈین ہائی کمیشن کے ذریعے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو بھارتی وزیرِ اعظم کی پشاور آمد کی اطلاع دی گئی۔
پشاور انٹرنیشنل ایئر پورٹ (موجودہ باچا خان ائیر پورٹ) پر اُس وقت کے وزیرِ اعلا ارباب جہانگیر خان، گورنر فدا محمد خان، خان عبدالولی خان، افضل خان لالا، حاجی غلام احمد بلور اور عبدالخالق خان نے راجیو گاندھی کا استقبال کیا اور ان کو پولیس کی سخت سیکورٹی میں کننگھم پارک تک لایا گیا۔
اُدھر پارک کے سیکورٹی انچارج سالار امان خان اور سالار احمد علی، پختون ایس ایف اور پارٹی رہ نماؤں کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ کیوں کہ اتنی ہائی پروفائل شخصیت کا اتنے بڑے اور جذباتی مجمع میں آنے پر ان کو فول پروف سیکورٹی فراہم کرنا ان کے لیے ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور تھا۔ قیصر لالا اور فرید طوفان لاؤڈ سپیکر پر لوگوں سے اپنی اپنی جگہ خاموشی کے ساتھ بیٹھنے کی بار بار اپیلیں کر رہے تھے، مگر یہ سب اپیلیں اور درخوستیں صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی تھیں۔ میاں صاحب، صدر الدین مروت اور حسین شاہ یوسف زئی بھی باری باری سٹیج پر آکر پختون ایس ایف کے نوجوانوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ کیوں کہ بے پناہ رش اور دھکم پیل کے باعث راجیو گاندھی کے سامنے کوئی ناخوش گورا واقعہ پیش آنے کا امکان موجود تھا، لیکن اسی اثنا میں اچانک سالار احمد علی نے ڈائس پر نمودار ہوتے ہوئے اپنی گرج دار آواز اور جذباتی انداز میں ایک جان دار تقریر کی۔ مجھے آج بھی ان کے وہ الفاظ یاد ہیں کہ: ’’اے د باچا خان بابا سپایانو، اے د خپل سپین سری ملنگ بابا بچو! نن ستاسو دَ صبر، استقامت او دَ نظم و ضبط امتحان دے۔ د اندرا گاندھی زوے او د جواہر لال نمسے ستاسو سرہ د بابا پہ غم کے شریکیدو لہ رازی۔ ھغہ بہ دَ پختنو دَ ننگ، غیرت او میلمستیا ڈیری قیصی اوریدلی وی۔ زکہ چی ھغہ تہ بہ دَ ھغہ مور دَ بابا دَ ملگرو دَ تنظیم او ڈسپلن خبری ضرور کڑی وی، خو نن بہ ورتہ پہ عمل کی خایو چی بابا زمونگ سنگہ تربیت کڑے دے! سوک چی چرتہ ئی ھم ھلتہ کینئی، ھیس سوک بہ دَ خپل زایہ نہ خوزی او نہ بہ سوک یوہ نعرہ وھئی۔ زمونگ ملگرو سرہ تعاون اوکڑئی۔”
بس پھر کیا تھا کہ لاکھوں کے مجمع پر ایسا سکوت چھا گیا کہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، سوائے ڈیوٹی پر معمور چند لوگوں کے جو کھڑے نظر آرہے تھے۔ پورا کننگھم پارک ایسا نظر آرہا تھا، جیسے اس نے سرخ چادر اوڑھ رکھی ہو۔ ہر سو سرخ ٹوپیاں اور جھنڈے نظر آرہے تھے۔
پارک میں قلعہ بالا حصار کی جانب سے کھلنے والے گیٹ سے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اپنی بیوی سونیا گاندھی، بیٹے راھول گاندھی اور بیٹی پریانکا گاندھی کے ساتھ ولی خان اور افضل خان لالا کی معیت میں پارک میں داخل ہوئے۔ اعلا سطحی یہ وفد آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بابا کے تابوت کے پاس آکر رُک گیا۔ مَیں چوں کہ باچا خان کے تابوت سے پانچ چھے فٹ کے فاصلے پر کھڑا تھا، اس لیے یہ سب کچھ بڑے قریب سے دیکھ پا رہا تھا۔ راجیو گاندھی نے آگے بڑھتے ہوئے باچا خان بابا کے چہرے کو جب دیکھا، تو ہاتھ جوڑ کر بابا کو تعظیمی سلام پیش کیا۔ پھر ان کی تابوت پر پھول چھڑائے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ جس کے بعد دو قدم پیچھے ہٹ کر جنگِ آزادی کے اس عظیم مجاہد اور اپنے نانا جواہر لال نہرو کے ساتھی فخر افغان باچا خان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے احتراماً تین منٹ تک خاموش کھڑے رہے۔
اس کے بعد اخبار نویسوں اور پریس فوٹو گرافروں نے اُن کو گھیر لیا۔ موصوف نے تین چار منٹ تک صحافیوں سے باچا خان کی شخصیت اور اُن کی خدمات سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ:
"Bacha Khan was truly a khudai Khedmatgar. He was popular for non violence. He was a true soldier for freedom of every human being and dedicated his life to the uplift of poor people. He was a vision of one humanity, and was a guardian of peace and harmony.”
جس کے بعد ولی خان آگے بڑھتے ہوئے ان کو مجمع کے بیچ میں بنے راستے سے باہر نکال لائے۔ اس دوران میں پارک کے اندر مکمل سناٹا تھا۔ مجال ہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ سے ہلا ہو، یا کسی نے کوئی نعرہ لگایا ہو، یا کسی نے راجیو گاندھی سے ملنے یا تصویر کھنچوانے کی کوشش کی ہو۔

بھارتی وزیرِ اعظم راجیو گاندھی اپنی بیوی سونیا گاندھی، بیٹے راھول گاندھی اور بیٹی پریانکا گاندھی سمیت باچا خان کے تابوت کے پاس کھڑے ہوکر ان کو تعظیمی سلام پیش کیا۔ پھر ان کی تابوت پر پھول چھڑائے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ جس کے بعد دو قدم پیچھے ہٹ کر جنگِ آزادی کے اس عظیم مجاہد اور اپنے نانا جواہر لال نہرو کے ساتھی فخر افغان باچا خان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے احتراماً تین منٹ تک خاموش کھڑے رہے۔
فوٹو: ابدالؔی

اُس موقع پر باچا خان کے پیرو کاروں نے جس شان دار نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا، مجھے یقین ہے کہ دنیا کی مہذب ترین اقوام بھی ایسے مواقع پر شاید نہ کر پاتیں۔ خدائی خدمت گاروں کے اس بے مثال نظم و ضبط کو دیکھتے ہوئے مجھے فخر اور خوشی محسوس ہو رہی تھی۔
قارئین، راجیو گاندھی جب رخصت ہوئے ، تو ہماری جان میں جان آئی۔ یوں ہم نے عوام کو بابا کا آخری دیدار کرانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔
ایسے میں مغرب کے بعد بارش کا نہ رُکنے والا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا، جس سے سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا اور ہماری مشکلات بھی بڑھنے لگیں…… لیکن اس شدید سردی اور بارش کے باوجود لوگوں کی تعداد میں کمی کے بہ جائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔
پارک کے اندر لوگوں نے چائے اور قہوہ کے سٹال لگائے تھے، جہاں وہ باہر سے آنے والے تمام مہمانوں کا گرم چائے سے تواضع کر رہے تھے۔ پشاور کے مخیر حضرات نے پنڈال میں موجود لوگوں کے لیے مفت کھانا تقسیم کرنے کا بھی بندوبست کر رکھا تھا۔
اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی ذیلی تنظیم (ملگری ڈاکٹران) نے پارک کے اندر کیمپ لگایا تھا، تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں طبی امداد مہیا کیا جاسکے۔ ڈاکٹر نواز خلیل، ڈاکٹر سالار اور ڈاکٹر لیاقت نے بڑی جاں فشانی سے کام کیا۔ یوں وہ اور اُن کی ٹیم دوائیوں اور ضروری طبی ساز و سامان کے ساتھ کیمپ میں موجود رہتے۔
قارئین، اُس وقت غنی خان جو خود بھی وہیل چیئر پر تھے، اپنے والدِ بزرگوار کے آخری دیدار کے لیے کننگھم پارک پہنچ گئے۔ اُن کی وہیل چیئر کو بابا کے تابوت کے پاس لایا گیا۔ وہ تھوڑی دیر بڑے غور سے بابا کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور دیر تک سر جھکائے دعا مانگتے رہے۔

غنی خان اور عبدالعلی خان اپنے والدِ بزرگوار کے آخری دیدار کےلیے کننگھم پارک میں موجود ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی

پھر اچانک سر اُٹھا کر اپنی عقابی آنکھوں سے عبدالعلی خان (اپنے چھوٹے بھائی) کو دیکھا اور ساتھ ہی ہاتھ سے جانے کا اشارہ کردیا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ غنی خان کو اُن کی گاڑی تک لانے میں اُن کے ڈرائیور کی مدد کرنے کا موقع ملا۔
قارئین، ہماری ٹیم جو مجھ سمیت شہزاد داوڑ، شاہ حسین بنگش، ایمل خان رشکئی، امجد علی مردان کالج، ہستم خان شنواری، ریاض خٹک، شہاب الدین، ناصر مومند، اقبال مومند، تھانہ کالج کے فضل ربی اور دوسرے ساتھیوں پر مشتمل تھی، سالار امان خان آف ادینہ (صوابی) کے زیرِ کمان تھی۔ سالار امان خان سرخ وردی میں ملبوس اپنی ٹیم کے ساتھ نہایت تندہی کے ساتھ پورے پارک کی نگرانی میں مصروف ہوا کرتے تھے۔
امان خان کاکا، خدائی خدمت گار عمرا خان بابا آف ادینہ کے بیٹے تھے جو ہمارے ساتھ بہت پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
اگست 1987ء میں جب باچا خان کوما میں چلے گئے اور دہلی سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور لائے گئے، تو موصوف نے اس وقت کننگھم پارک میں تقریباً ایک مہینے تک کیمپ لگایا تھا، جس میں پارٹی قائدین اور کارکنان روز آیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ہم سے شام کو پریڈ بھی کرواتے تھے اور خود بڑی چابُک دستی سے پورے کننگھم پارک میں گھومتے رہتے تھے اور سب کی خبر اور ہر چیز پر نظر رکھتے تھے۔ وہ ہمارے لیے ڈیوٹی کے دوران میں کہیں سے خیراتی کھانا لاتے اور وقفے وقفے سے چائے وغیرہ بھی پلاتے رہتے تھے۔
قیصر خان لالا اور فرید طوفان جو پارٹی کے مرکزی اور صوبائی پریس سیکٹری تھے، لاؤڈ سپیکر پر مسلسل لوگوں سے ہمارے ساتھ تعاون کی اپیل کرتے تھے اور اعلانات کے ذریعے مختلف ہدایات اور اطلاعات بہم پہنچاتے رہتے تھے۔
رات بھر بارش ہوتی رہی، مگر لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ دور دراز علاقوں سے لوگ جوق در جوق کننگھم پارک پہنچ رہے تھے۔
باچا خان کے تابوت کے سرہانے افضل خان لالا، بشیر خان اور باچا خان کے چھوٹے فرزند عبد العلی خان رات گئے تک کھڑے رہے۔ رات گئے امان خان کاکا نے آکر ہمیں آرام کے لیے بھیجا اور ساتھ ہی صبح 9 بجے دوبارہ حاضر ہونے کو کہا۔ ہم اپنے دوستوں صادق امین (مرحوم)، نور محمد (نور بابو)، نصراللہ کبیر اورنگ زیب اور سید نذیر باغی کے ساتھ میاں صاحب کی قیادت میں پشاور کی گلی کوچوں میں پڑے دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کا حال معلوم کرنے شہر کا چکر لگانے نکلے۔ اگلے روز یعنی 21 جنوری کو باچا خان کا جنازہ تھا۔ لہٰذا ملک کے طول و عرض سے باچا خان کے پیروکار اور سیاسی کارکن آج ہی پشاور پہنچ چکے تھے۔ پشاور کے تمام ہوٹل اور سرائے لوگوں سے بھر گئے تھے۔ کوئی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں مقیم تھا، تو کسی نے پشاور کے مضافاتی علاقوں اور قریبی شہروں یعنی چارسدہ، مردان اور نوشہرہ وغیرہ میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں ڈیرا جمالیا تھا۔ اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے کننگھم پارک سے ملحقہ مساجد، بازاروں، سڑکوں اور دکانوں کے تھڑوں پر رات جاگ کر گزاری۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے جی ٹی روڈ، چوکِ یاد گار، قصہ خوانی بازار، خیبر بازار، سوئیکارانو چوک، ہشت نگر، کریم پورہ،رام پورہ گیٹ اور چارسدہ روڈ پر بے شمار لوگوں کو دیکھا، جو دکانوں کے سامنے تھڑوں اور مارکیٹوں میں پلاسٹک کے عارضی سائبان تلے بیٹھے کل کے دن یعنی 21 جنوری کا انتظار کر رہے تھے۔
قارئین، پشاور اگر ایک طرف سوگ میں ڈوبا ہوا تھا، تو دوسری طرف پشاور کے شہریوں کی روایتی مہمان نوازی دیدنی تھی۔ لوگوں نے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے باچا خان کے مہمانوں کے لیے کھول دیے تھے۔ گلی محلوں میں دیگیں چھڑائی گئی تھیں۔ کھانے، چائے اور روٹیاں پک رہی تھیں۔ آفرین ہو اے این پی پشاور سٹی ڈسٹرکٹ کی تنظیم اور کارکنان پر جن میں حاجی طاہر (مرحوم)، حبیب الرحمان لالا (مرحوم)، فضل الرحمان لالا (مرحوم)، حمید الرحمان لالا، ان کے ساتھی اور خصوصاً حاجی عدیل اور بلور فیملی کے افراد پر، جو رات بھر شہر کے گلی کوچوں میں گھومتے رہے اور باچا خان کے مہمانوں کو کھانا اور چائے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خبر گیری کرتے رہے۔ بارش اور شدید سردی کے باوجود پشاور اُس رات جاگ رہا تھا اور شہر ایک عجیب سا منظر پیش کر رہا تھا۔ دوستی، امن، پیار و محبت اور بھائی چارے کی تاریخ رقم ہو رہی تھی۔
قارئین، ہم رات گئے تک پارک میں رہنے اور بارش کے دوران میں شہر میں گھومنے کے باعث مکمل طور پر تھک چکے تھے۔ رات کے 3 بجے مجھے شدید درد محسوس ہونے لگا اور ایسا لگا جیسے میری ٹانگوں میں مزید کھڑے رہنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ حمید الرحمان لالا میری حالت کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ فقیر آباد اپنے گھر لے گئے۔ موصوف نے جب میرا بخار چیک کیا، تو 102 شدت کا تھا۔ مَیں نے حمید لالا کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’لالا! کوئی ایسی دوائی دو، جس سے مَیں صبح تک ٹھیک ہوجاؤں، کیوں کہ مَیں کسی بھی قیمت پر باچا خان کے جنازے میں شرکت اور جنازے کے ساتھ جلال آباد نے سے نہیں رہ سکتا۔‘‘
حمید لالا نے مجھے دوا دی اور آرام کرنے کو کہا۔ اُدھر میرے دوست شہزاد کے والد انجینئر اسلم خان (آغا گل مرحوم) ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ کیوں کہ اُن کو بھی ہماری فکر ہو رہی تھی۔ انھوں نے پارک کے باہر ’’روزنامہ شہباز‘‘ کے دفتر کے سامنے سے ہمیں اُٹھالیا اور گھر لے گئے۔ جہاں ہم نے دوا لے کر چند گھنٹے آرام کیا۔
☆ 21 جنوری 1988ء، باچا خان کی نمازِ جنازہ کا دن:
دوا اور آرام سے 21 جنوری کو میرا کافی اِفاقہ ہوا۔ لہٰذا تیار ہو کر صبح کننگھم پارک پہنچا۔ بارش مسلسل ہو رہی تھی۔ انسانی سروں کا ٹاٹیں مارتا ہوا سمندر کننگھم پارک میں بابا کے جنازے کے لیے امڈ آیا تھا۔ ہر طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ پارک کے اندر تِل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی۔ پارک کے باہر چاروں اطراف کی سڑکیں تا حدِ نگاہ لوگوں سے بھرچکی تھیں۔ جنازے کا انتظار ہو رہا تھا۔ رش اور دھکم پیل کی وجہ سے ہم بڑی مشکل سے بابا کے تابوت تک پہنچنے میں کام یاب ہوئے۔ افضل خان لالا، جج صاحب، بشیر بلور اور باچا خان کے چھوٹے بیٹے علی خان، بابا کے تابوت کے ساتھ کھڑے تھے۔ لوگ نمازِ جنازہ کے انتظار میں تھے۔ کیوں کہ قائدین کی طرف سے جنازے کے لیے سہ پہر 3 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ گھنٹوں پہلے صفیں سیدھی کی جارہی تھیں۔ ’’پختون زلمی‘‘ کے باوردی اہل کاروں نے چند اہم ترین شخصیات جن میں جنرل ریٹائرڈ فضل حق، مولانا فضل الرحمان، خورشید محمود قریشی، سردار شوکت حیات اور دیگر اعلا حکومتی ارکان اور سول عہدے دارن اور معززین کو پہلی صف تک پہنچانے میں مدد کی، لیکن اس دوران میں اچانک صدرِ مملکت جنرل ضیاء الحق، وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو اور گورنر فدا محمد خان سٹیج پر نمودار ہوئے۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ صدر اور وزیرِ اعظم کیسے پہلی صف تک پہنچے؟ کیوں کہ آخری وقت تک ان کے جنازے میں شرکت کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اس دوران میں لوگوں کو اُس وقت ایک عجیب صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا، جب نمازِ جنازہ بالکل تیار تھی، صفیں تیار تھیں، رجڑ کے ’’صاحبِ حق صاحب‘‘ جنازے کی امامت کے لیے آگے کھڑے تھے، مگر ولی خان کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ رش کی وجہ سے لوگوں کے درمیان پھنس گئے تھے۔ یوں ’’پختون زلمی‘‘ کے کمانڈروں کو اُن کو پہلی صف تک لانے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی۔ فرید طوفان، لوگوں سے ولی خان کو راستہ دینے کی اپیلیں کر رہے تھے۔ آخر خدا خدا کرکے پختون زلمی کے کمانڈران، اُنھیں آگے لانے میں کام یاب ہوئے۔ نمازِ جنازہ کی ادائی کے بعد بھی لوگ منتشر ہونے کے بہ جائے بابا کی آخری دیدار کے لیے ٹوٹ پڑے۔ بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ہزاروں لوگ اُس رات بھی شدید سردی اور بارش میں وہاں ٹھہرے اور اگلے دن (22 جنوری) کو بابا کے جسدِ خاکی کے ساتھ جلال آباد جانے کا انتظار کرتے رہے۔
رات گئے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر میاں افتخارحسین نے ہمیں بلایا اور ہم کو یونی ورسٹی جا کر پروفیسر اجمل خان (سابق وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور، جو اُس وقت پشاور یونی ورسٹی کے اسسٹنٹ پرووسٹ تھے) کے گھر سے بینر اور جھنڈے، جو باچا خان کے جنازے کو لے جانے والے ٹرک کو سجانے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے تھے، کو لانے کے لیے بھیجا۔ مَیں اور شہزاد داوڑ نے یونی ورسٹی میں واقع پروفیسر اجمل خان کے گھر سے وہ سامان اٹھایا۔ پروفیسر صاحب نے ہمیں کھانے کے لیے روک دیا، تو ہم خوش ہوئے۔ کیوں کہ دن بھر کھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کھانے کے بعد واپس کننگھم پارک جاکر وہ سب سامان میاں صاحب کے حوالے کیا۔
یہ ہمارے ہاں باچا خان کی آخری رات تھی۔ کیوں کہ کل اُن کو اُن کی وصیت کے مطابق جلال آباد میں تدفین کے لیے لے جایا جانا تھا۔ بہ قول شاہد قماش:
مدفن لہ ھسی نہ کڑو انتخاب ئی ننگرہار
دا ھم دے پہ یو رنگ مزاحمت د باچا خان
دو دنوں سے ہم لوگوں کو بابا کا دیدار کرواتے رہے۔ اپنی مصروفیت، رش اور دھکم پیل کے باعث میری نظر کبھی کبھار ہی بابا کے رُخِ انور پر پڑتی رہی مگر آج رات دو بجے کے قریب جب لوگوں کا رش ذرا کم پڑگیا، تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ مَیں نے بابا کو، جب میری عمر 12 سال تھی، پہلی بار 1977ء میں اُس وقت دیکھا تھا، جب وہ پشاور کے قریب ’’تارو جبہ‘‘ میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے آئے تھے ۔ پھر 16 سال کی عمر میں اُس وقت دیکھنا نصیب ہوا، جب مَیں فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔ پھر 1981ء میں رشید ستار ہاؤس میں پارٹی کے صوبائی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں، پھر اُن کے ساتھ ’’کالا باغ ڈیم مخالف مہم‘‘ میں جلسوں میں شرکت اور پھر 1984ء میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیرِ علاج تھے، دیکھا تھا۔ جب تک وہ ہسپتال میں زیرِ علاج رہے، ہم دن میں ایک بار اُن سے ملنے ضرور جاتے۔ اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُن کے پاؤں دباتے، اُن کو کھانا کھلانے، دوائی پلانے اور ان کے کمرے کی صفائی میں فرید طوفان کا ہاتھ بٹاتے۔ یہ سارے مناظر ایک لمحے کے لیے فلم کی سکرین کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔
مَیں بابا کے چہرے کو جب دیکھتا، تو میرے اندر کی کیفیت میں اضطراب پیدا ہوتا۔ لہٰذا دوڑ کر بابا کے تابوت پر لگے شیشے کو چھومنے لگا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ شیشہ کھول کر بابا کے چہرے پر بوسہ دوں، مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ میری یہ حالت دیکھ کر فضل الرحمان لالا نے وہاں موجود ایک کمانڈر سے کہا کہ ’’دا ھلک ترے را دیخوا کڑہ!‘‘ جس پر باچا خان کے بیٹے عبدالعلی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’پریگدہ چی زڑہ تش کڑی۔ دا د بابا پتنگان دی، بیا دوی چرتہ او بابا چرتہ!‘‘
لیکن رات کے 3 بجے کے قریب حسین شاہ یوسف زئی نے آکر مجھے اور شہزاد کو گھر بھیج دیا اور کل صبح سویرے پہنچنے کی ہدایت کی۔
22 جنوری 1988ء باچا خان کا سفرِ آخرت (روانگی جلال آباد افغانستان) ممتاز لالا کے بہ قول:
زہ لہ تا شم صدقہ جلال آبادہ
تاتہ خپل جسد سپارلے باچا خان دے
قارئین، 22 جنوری کو علی الصباح جب ہم تیار ہوئے، تو مَیں اور شہزاد اُن کے والد کی گاڑی میں کننگھم پارک کے لیے روانہ ہوئے ۔ ہر طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں کھڑی تھیں اور ہر گاڑی پر سرخ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ملک کے طول و عرض سے گاڑیوں کے قافلے جو کل رات سے ہی پشاور پہنچے تھے، آج جلال آباد کے لیے رواں دواں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ رش کے ڈر سے زیادہ تر لوگ جنازے کے جلوس سے پہلے ہی طور خم کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔
یوں کننگھم پارک سے بابا کے تابوت کو خصوصی تیار کیے گئے سرخ رنگ کے ٹرک پر رکھ دیا گیا، جس کے فرنٹ پر ’’انا اللہ و انا الیہ راجعون‘‘ کا بینر لگا ہوا تھا۔ ٹرک کے دائیں جانب کالا جھنڈا، درمیان میں سفید اور بائیں جانب سرخ جھنڈا لہرا رہا تھا۔
ٹرک پر ’’پختون زلمی‘‘کے کمانڈروں اور پارٹی قائدین کے علاوہ عبدالعلی خان بھی کھڑے نظر آرہے تھے ۔
ہزاروں گاڑیوں پر مشتمل یہ قافلہ یونیورسٹی روڈ، خیبر پاس اور لنڈی کوتل سے گزرتا ہوا طورخم پہنچا۔ پارک سے لے کر طور خم تک، باچا خان کی تصاویر والے بڑے بڑے بینر لگے ہوئے تھے، جگہ جگہ دیواروں پر چاکنگ نظر آرہی تھی، جس پر نمایاں طور پر باچا خان کو خراجِ عقیدت کے کلمات درج تھے۔
جنازہ سہ پہر کے وقت جلال آباد پہنچا۔ افغان حکومت کی طرف سے ’’شیشم باغ‘‘ سے کافی دور گاڑیوں کے لیے پارکنگ کا انتظام کیا گیا تھا، جہاں افغان فوج کے جواں گاڑیوں کو قطار در قطار کھڑی کرنے میں ڈرائیور حضرات کی رہ نمائی میں مصروف تھے۔
انسانوں کا ٹاٹیں مارتا ہوا سمندر جنازے کے آگے پیچھے ’’شیشم باغ‘‘ کی طرف آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ کابل ٹی وی جنازے کے مناظر بہ راہِ راست نشر کر رہا تھا۔ ایک بکتر بند گاڑی سے ایک خاص قسم کی ماتمی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ کمنٹریٹر جو رواں تبصرہ کر رہا تھا، بار بار یہ شعر دھرا رہا تھا کہ:
لاڑلو دنیا نہ باچا خان د پختنو
ژاڑی ورپسے زمکہ آسمان د پختنو
ہم نے بھی جلدی جلدی اپنی گاڑی ایک جگہ پارک کی اور شیشم باغ کی طرف ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر پیدل روانہ ہوئے۔ سڑک کے کنارے ایک بڑی نہر تھی جو بالکل خشک تھی۔ سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے لوگوں کا جمِ غفیر نہر میں کود کر چلنے لگا۔
دا دومرہ لار وھل، يارہ وڑہ خبرہ نہ وہ
زان تاتہ رسول يارہ وڑہ خبرہ نہ وہ
زانونہ مو پہ لار لکہ د ریگ د سلو باد کڑل
خپل سلی بادول، يارہ وڑہ خبرہ نہ وہ
تسنيمہ! چرتہ زہ او چرتہ ھغہ رنڑی سترگی
دی زڑہ کے می وئیل، يارہ وڑہ خبرہ نہ وہ
جلال آباد پہنچتے ہی جنازے کا کنٹرول ’’افغان انقلابی گارڈ‘‘ نے سنبھالا۔ بابا کے جسدِ خاکی کو ٹرک سے اُتار کر اُس توپ پر رکھ دیا گیا جس پر غازی امان اللہ خان کا تابوت رکھا گیا تھا۔ ’’افغان انقلابی گارڈ‘‘ کے چاق و چوبند دستے بڑی جاں فشانی اور چابُک دستی سے ہجوم کو کنٹرول کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ توپ، جس کو ایک خوب صورت ٹرک کھینچ رہا تھا، گل دستوں سے سجی ہوئی تھی۔ خان عبدالولی خان، بیگم نسیم ولی خان اور دیگر پارٹی قائدین اور افغان حکومت کی اعلا قیادت اس کے پیچھے پیدل جا رہی تھی۔ ایک خوب صورت نوجوان غنی خان کی وہیل چیئر کو توپ کے پیچھے چلا رہا تھا۔ اس دوران میں دراز قد، سرخ و سفید رنگت اور بارعب شخصیت رکھنے والے افغان صدر ڈاکٹر نجیب بلیو سوٹ میں ملبوس جلوس کے بالکل سامنے سے اچانک نمودار ہوئے۔ تیزی سے ولی خان کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے ساتھ بغل گیر ہوئے اور پھر ان کے ساتھ جنازے کے جلوس میں چلنے لگے۔
جگہ کی تنگی اور سیکورٹی خطرات کے پیشِ نظر ’’شیشم باغ‘‘ میں چند اہم شخصیات کو اندر جانے کی اجازت تھی۔ لہٰذا ہم نے تدفین کی کارروائی اور مزار پر منعقدہ تعزیتی تقریب کا احوال لاؤڈ سپیکر ہی پر سنا۔
تدفین کے موقع پر افغان صدر ڈاکٹر نجیب کے علاوہ افغان حکومت کے اعلا حکام جن میں سلیمان لائق، انقلابی گارڈز کے جرنیل، سوویت یونین اور بھارت کے سفیروں نے شرکت کی۔ انھوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سے تعزیتی پیغامات سنائے اور مزار پر گل دستے رکھے۔ ان کے علاوہ کشمیری رہ نما فاروق عبد اللہ بھی اس موقع پر شریک تھے۔
قارئین! ’’شیشم باغ‘‘ کے اندر جب بابا کی تدفین ہو رہی تھی، تو عین اسی وقت تین زور دار دھماکے ہوئے، جن کی شدت اس قدر شدید تھی کہ ہمارے پیروں تلے زمین ہل گئی۔ بعض لوگ اس کو توپوں کی سلامی سمجھ رہے تھے، لیکن پتا تب چلا جب پارکنگ ایریا کی طرف سے ایمبولنس کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں۔ اتنی دیر میں باچا خان کی تدفین کا مرحلہ اختتام پذیر ہو چکا تھا اور لوگ واپس جانے لگے تھے۔ ہمارے سامنے سے بے شمار ایمبولنس ہسپتال کی جانب رواں تھیں۔ ہر کسی کو اپنی گاڑی سے زیادہ اپنے ساتھ آنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کی فکر تھی۔ سب لوگ ایک دوسرے سے واقعے اور جانی و مالی نقصان کے بارے میں پوچھ گچھ میں مصروف تھے۔
دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دھماکے پشاور یونی ورسٹی کی بسوں میں ہوئے تھے۔
ہم آہستہ آہستہ پارکنگ کی جانب پیدل چل رہے تھے۔ جب وہاں پہنچے، تو قیامتِ صغرا کا عالم تھا۔ دھماکوں کی وجہ سے زمین میں بڑے اور گہرت گڑھے بن چکے تھے، جن کی مٹی اُڑ کر چاروں طرف گاڑیوں پر پڑچکی تھی، جس کی وجہ سے زیادہ تر گاڑیاں ناقابلِ شناخت ہو چکی تھیں۔ ہر طرف لاشیں اور زخمی بکھرے پڑے درد سے کراہ رہے تھے۔
ہماری گاڑی چوں کہ پارکنگ کے بالکل شروع کے حصے میں کھڑی تھی اور دھماکے پارکنگ کے درمیان میں ہوئے تھے، لہٰذا ہماری گاڑی گرد اور مٹی سے تو اَٹ چکی تھی، مگر نقصان سے بچ گئی تھی۔ جب کہ ہزاروں گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھیں اور ہر طرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔
وہاں پانی کا ایک چھوٹا سا نالہ تھا، جو دھماکے سے پھٹ گیا تھا اور پانی کی پھوار زمین پر پڑی لاشوں اور زخمیوں پر پڑ رہی تھی۔ ہم نے وہاں موجود لوگوں کے ساتھ مل کر لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر محفوظ جگہ پر رکھ دیا۔ زخمیوں کا بہتا خون روکنے کے لیے لوگوں سے چادریں مانگ کر ان کے زخموں کے گرد لپیٹ دیں۔ اس دوران میں شام ہوچکی تھی اور اندھیرا چھانے لگا تھا، مگر جب تک یہ تمام لاشیں اور زخمی ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال پہنچائی نہیں گئیں، ہم اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں موقع پر موجود رہے۔
اُس دن ہم سب دوہرے غم سے دو چار ہوئے۔ ایک طرف فخرِ افغان باچا خان کی جدائی کا غم، تو دوسری طرف بم دھماکوں میں قیمتی جانی نقصان، جن میں ڈھیر سارے بے گناہ لوگ شہید ہوئے۔
کہ سپوگمئی تہ لاڑم ہلتہ بہ ہم راشی
چرتہ لاڑ شمہ لہ داسی حیوانانو
خپلی خزی کونڈی پریگدئی چی کڑیگی
دلتہ سہ کوئی د حورو خاوندانو
افغان حکومت اگر ایک طرف لاشوں کو اٹھانے، زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں مصروف تھے، تو دوسری طرف پشاور سے آنے والے لاکھوں مہمانوں کے لیے وافر مقدار میں کھانے کا بندوبست بھی کیا تھا۔ بکتر بند گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جا رہے تھے، جس میں چاول، گوشت، روٹی، دو کیلے اور ایک سیب شامل تھا۔ یہ کھانا اتنی وافر مقدار میں تھا کہ کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا، جس کو یہ پیکٹ نہ ملا ہو۔ یوں جنگ زدہ افغانستان نے اپنے بھائیوں کی ایسی مہمان نوازی کی، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
ڈھیر سارے لوگ اپنی تباہ شدہ گاڑیاں وہیں چھوڑ کر واپس آنے لگے۔ ہم نے بھی اپنے ساتھ ’’سی اینڈ ڈبلیو‘‘ کے ایک ریٹائرڈ ایکسین کو اُن کے دو جوان بیٹوں کے ہم راہ اپنی گاڑی میں بٹھالیا، جن کی نئی 86 ماڈل کرولا گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔
افضل خان لالا اور لطیف لالا سمیت پارٹی قائدین اور پختون ایس ایف کے رہ نما زخمیوں کی تیمار داری اور لاشوں کو پشاور لانے کے بندوبست کے لیے جلال آباد ہی میں رہ گئے۔
واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا، لوگ تھک چکے تھے، سڑکیں تنگ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو سخت ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان فوج کے اہل کار ٹریفک کنٹرول کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ ایک جگہ ہماری گاڑی کے بالکل سامنے 83ء ماڈل کی کرولا گاڑی کھڑی تھی، جس کا رجسٹریشن نمبر "DIR 1313” تھا۔ لوگ اُس گاڑی کو دیکھ کر ڈر کی وجہ سے پھر بھاگ گئے کہ کہیں اس میں بھی بم نہ ہو، لیکن افغان فوج کے دو اہل کاروں نے گاڑی کے شیشے توڑ دیے۔ کنفرم کرنے کے بعد کہ اس گاڑی میں بم نہیں، ہم سے اُس گاڑی کو سڑک سے ہٹانے کی درخواست کی۔ لہٰذا ہم نے بہ آوازِ بلند لوگوں کو کہا کہ واپس آجائیں، گاڑی میں بم نہیں پڑا ہے۔ پھر لوگوں نے مل کر اُس گاڑی کو سڑک سے اٹھا کر کنارے لگا دیا۔
واپسی کے موقع پر ہمارے قافلے کے اوپر ہیلی کاپٹر محوِ پرواز تھے اور ان سے دور جنگی جہاز تواتر سے فضا میں روشنی کے گولے چھوڑ رہے تھے۔ ہم کو اس وقت اس روشنی کے گولوں کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیوں چھوڑے جا رہے ہیں؟ مگر بعد میں پتا چلا کہ یہ قافلے کو سٹنگر میزائلوں کے حملے سے بچانے کے لیے چھوڑے جا رہے تھے۔ کیوں کہ اُن دنوں امریکہ نے گلبدین حکمت یار کو سٹنگر میزائل کی فراہمی شروع کی تھی۔ یوں افغان حکومت کو ڈر تھا کہ کہیں قافلے کو سٹنگر میزائل سے نشانہ نہ بنایا جائے۔
خدا خدا کرکے بالآخر ہم رات کے تین بجے کے قریب پشاور پہنچ گئے۔ پارٹی قائدین اگلے دن شہدا کی لاشیں لے کر پشاور پہنچے۔ پارٹی قائدین نے مختلف جگہوں پر شہدا کے جنازے میں شرکت کی، جن میں سابق صوبائی جنرل سیکرٹری تاج الدین خان کے بھائی بھی شامل تھے۔ ڈھیر سارے لوگ اگلے دو تین دن بعد پشاور پہنچے۔ یوں یہ کرب ناک مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
جاتے جاتے عظیم انقلابی شاعر سینیٹر اجمل خٹک کے ان اشعار پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
پہ لارو کے مو بل دی د سرو وینو مشالونہ
د ژوند کلی کاروان تی مو ٹاکلی نخانونہ
د دی اوچت منزل تر آسمانی سوکو بہ رسو
سوارہ بہ ھم ماتیگی ھم غورزیگی بہ سرونہ
دا چا وئیل د مینی لار د گلو پہ روش دہ
پہ ہر یو قدم دلتہ کے پیخیگی گڑنگونہ
دا مونگہ لیونی لکہ جرس مخکے روان یو
زمونگہ پہ وھلو بہ سر کیگی منزلونہ
د غم کچکول پہ غاڑہ د وفا پہ لارہ زغلی
رازئی چی د خٹک سرہ یو زائے کڑو قدمونہ
___________________________
راقم کے اس تحریر کو 10 فروری 2025ء سے لے کر 17 فروری 2025ء تک روزنامہ آزادی سوات نے قسط وار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: