وہ زبان جو بچہ اپنے والدین سے سیکھے، وہ زبان جس میں انسان خواب دیکھتا ہو، وہ زبان جس میں وہ اپنے احساسات اور جذبات کا بڑی آسانی اور سلیقے سے اظہار کرسکتا ہو، اسی زبان کو گھر کی زبان، اپنی بولی یا مادری زبان یعنی (Mother Language) کہلاتا ہے۔
قارئین، دنیا میں دو زبانیں ایسی ہیں جو ہر شخص بغیر کسی قسم کا علم حاصل کیے بول یا سمجھ سکتا ہے، ایک اپنی مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان۔ کیوں کہ مادری زبان صرف زبان یا لسانیت نہیں ہوتی، بلکہ کسی قوم کی ایک پوری شناخت ہوتی ہے۔ امیرحمزہ شنواری کے بہ قول:
اول خپلہ ژبہ پس لہ ھغی نورے ژبی
بے بنیادہ عمارت خو سمون نہ کا
(پہلی اپنی زبان بعد میں دوسری زبانیں، کہ بنیاد کے بغیر کوئی بھی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔)
لہٰذا اپنی مادری زبان پوری زندگی کی عمارت کی بنیاد ہوتی ہے۔ مادری زبان ایک پوری تہذیب، تمدّن، ثقافت، جذبات و احساسات کا حسین امتزاج ہوتی ہے۔ مادری زبان میں خیالات و معلومات کی ترسیل اور ابلاغ ایک قدرتی اور آسان طریقہ ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا عمل جو کہ سراسر انسانی ذہن میں تشکیل پاتا ہے، وہ بھی لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی پراسیس ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔ لہٰذا انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سب سے بہترین اظہار بھی مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔ فی البدیہہ اظہار کے لیے بھی مادری زبان کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔ انسان جب رحمِ مادر میں ہوتا ہے، تو اس کا نظامِ سماعت کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ جن آوازوں کو انسان سنتا ہے، اُن آوازوں میں انسانی ذہن کے اندر ماحول کا شعور اور گرامر و قواعد ترتیب پانا شروع ہوجاتے ہیں۔ فہمِ انسانی کا بہ راہِ راست تعلق بھی ذہن انسانی اور مادری زبان کے رابطے سے ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ فہمِ انسانی میں فراست، وسعت اور گہرائی صرف مادری زبان میں ہی ممکن ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، سیکھنے اور سکھانے کے لیے آسان ترین زبان، مادری زبان ہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے "یونیسکو” نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرحِ خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق "یونیسکو” کی جاری کردی پالیسی دستاویز میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6 سال تک مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے، تاکہ جو کچھ بچے نے سیکھا ہے وہ بھول نہ جائے۔
مختصراً یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ زبان جو انسان اپنی ماں سے سیکھے۔ ماں کی نسبت جس کسی چیز، مادے یا متعلقات سے ہو جاتی ہے اس سے دل کا اور جذباتی رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ یہی اُنسیت مادری زبان کے ساتھ بھی ہے۔
واضح ہو کہ 21 فروری ان قوموں کےلیے "مادری زبانوں کا عالمی دن” ہے، جنہیں ان کی مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہو، جنہیں معلوم ہو کہ مادری زبان ان کی پہچان یا شناخت ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے احساسات، اپنے نظریات کو باآسانی اپنے ہم زبانوں کو سمجھا سکتے ہیں۔
قارئین، اس تاریخی دن کی شروعات مشرقی پاکستان (اَب بنگلہ دیش) کے کچھ نوجوانوں نے کی جب تاریخ میں پہلی بار اپنی مادری زبان کو تسلیم کرانے کے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ 21 فروری ہمیں پھر سے یاد دلاتی ہے کہ ہاں ہم زندہ ہیں اور ہماری خود کی پہچان اور اہمیت مسلم ہے۔
معتبر ادبی شخصیت رسول حمزہ توف اپنی کتاب "میرا داغستان” میں مادری زبان کی حیثیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ "میرے نزدیک زبانیں آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کی حیثیت رکھتی ہیں اور میں یہ نہیں چاہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک بڑے ستارے کا روپ لے لیں۔ کیوں کہ اس کےلیے تو سورج موجود ہے لیکن سورج کے وجود کے بعد بھی یہ ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ آسمان پر ستارے چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اس کا اپنا ستارہ ہو۔” رسول حمزہ توف کے مطابق ہر کسی کے پاس اپنی مادری زبان کا ہونا اور جاننا لازم و ملزوم ہے۔
قارئین، ایک لسانی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کُل 6809 زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ 537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے افراد کی تعداد تقریباً پچاس افراد کے قریب ہی رہ گئی ہے اور 46 زبانیں مکمل ختم ہونے کو ہیں جن کو بولنے والا دنیا میں ایک ایک انسان ہی باقی بچا ہے۔
ہر سال 21 فروری کو کم و بیش ہر زبان کے بولنے والے اپنی مادری زبان عالمی سطح پر مناتے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے اور اس کو فروغ دینا ہے۔ چونکہ گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں، اس لیے ان کے فروغ، اشاعت اور ترقی کے لیے کچھ عملی قدمات اُٹھانے چاہیے۔ جس کو اپنی مادری زبان پیاری ہوتی ہے اسے دوسروں کی زبان کو بھی اسی نظر اور احساس سے دیکھنا چاہیے۔ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں اسی سرزمین کی زبانیں ہیں اور یہ ایک گلدستہ ہے۔ لہٰذا اس گلدستے میں اگر ایک پھول بھی مرجھا جائے، تو گلدستہ کا رنگ پیکا اور نامکمل نظر آئے گا۔
جاتے جاتے اس شعر پر اجازت طلب کرنا چاہوں گا کہ:
ایک ایک حرف کی رکھنی ہے آبرو مجھ کو
سوال دِل کا نہیں ہے، میری زبان کا ہے
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: