سابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکرٹری محمد مشتاق اپنے ایک کالم بعنوان “جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ” میں لکھتے ہیں کہ: نہیں، اگر آپ یہ سمجھے ہیں کہ مَیں قاضی صاحب کے خلاف کسی “عدالتی بغاوت” کے منصوبے کا انکشاف کرنے جارہا ہوں، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ مَیں اس منصوبے کی بات کررہا ہوں جس کا ذکر کل فل کورٹ کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں ہے۔
پچھلے سال جب قاضی صاحب نے چیف جسٹس کے طور پر پہلے دن فل کورٹ کا اجلاس بلایا، تو اس کا ایک ایجنڈا آئٹم یہی تھا، جو کل والے اجلاس کا بھی تھا، کہ عدالت میں سالہا سال سے ہزاروں کی تعداد میں معلق مقدمات کی تعداد کیسے کم کی جائے…؟ اجلاس کو بتایا گیا کہ کئی سال قبل جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مبنی دو رکنی کمیٹی کو اس مقصد کےلیے تجاویز دینے کا کام سونپا گیا ہے لیکن اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس کمیٹی کی رپورٹ نہیں آئی۔ مزید معلوم ہوا کہ رپورٹ کا ابتدائی خاکہ تو تیار ہوچکا ہے لیکن حتمی رپورٹ ابھی بننی ہے۔ بہر حال اسی کمیٹی کو پھر یہی کام سونپ کر جلد پیش کرنے کےلیے کہا گیا۔
کچھ عرصے بعد رپورٹ تو آئی لیکن وہ صرف جسٹس سید منصور علی شاہ کی رپورٹ تھی کیوں کہ جسٹس منیب اختر کا ان سے کئی امور پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا، تو انھوں نے اپنی جانب سے رپورٹ دے دی۔ جسٹس منیب کی رپورٹ میرے علم کی حد تک بعد میں بھی نہیں آئی، اور شاید کل کے اجلاس میں بھی پیش نہیں کی گئی کیوں کہ اعلامیہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
بر سرِ آمدم، بات ہورہی تھی معلق مقدمات کا انبار ختم کرنے کےلیے جسٹس منصور کی رپورٹ کی، تو رپورٹ میں شاندار ذخیرۂ الفاظ استعمال کرکے بڑے بڑے اہداف مقرر کیے گئے تھے اور ان تک پہنچنے کے راستے بھی بتائے گئے تھے۔ میں پڑھ کر اش اش کر اٹھا تھا (اس ترکیب کو “عش عش” کرنے کا مشور نہ دیں، “اش اش” ہی درست ہے)۔
لیکن عملاً جو کچھ ہوا، اس کے بعد کل کا اعلامیہ پڑھ کر بھی میرے ذہن میں مسلسل یہی مصرع چل رہا ہے:
میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں…؟
اس بے اعتباری کی وجہ کیا ہے؟ ماضیِ قریب کی ایک مثال دیکھ لیجیے۔
قاضی صاحب صبح تقریباً 9 بج کر 25 منٹ پر سپریم کورٹ پہنچتے تھے، تو میں ان کے ساتھ کمرۂ عدالت تک جاتا تاکہ اگر انھیں کچھ ہدایات دینی ہوں، تو وہ دے دیں اور اگر میں نے ان کے علم میں کوئی بات لانی ہے، تو میں وہ پیش کروں۔ عدالت کی کارروائی 9 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوتی تھی۔ اس دن قاضی صاحب تقریباً 9 بج کر 28 منٹ پر پہنچے۔ تیزی سے کمرۂ عدالت کی طرف جارہے تھے اور  مجھے کچھ بتا بھی رہے تھے لیکن بات تھوڑی لمبی ہوگئی، تو رک کر مجھے لکھنے کےلیے کہا۔ میں نے وہ باتیں نوٹ کرلیں اور پھر ہم آگے بڑھے، تقریباً 9 بج کر 35 منٹ پر کمرۂ عدالت کے قریب پہنچے، تو اچانک ایک جھٹکا سا لگا کہ سامنے سے لاہور کے تین جج آرہے ہیں۔ قاضی صاحب نے آگے بڑھ کر کہا، خیریت، آپ تو واپس جارہے ہیں…؟ ان کے سینیئر نے کہا کہ ہاں، ہمارے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔ ختم ہوگئے ہیں؟ قاضی صاحب نے حیرت سے پوچھا، ابھی تو 9 بج 35 منٹ ہوئے ہیں، 5 منٹ میں کیسے ختم ہوگئے؟ جواب ملا: ہاں، بس کچھ التوا کی درخواستیں تھیں، نمٹا دی ہیں۔ قاضی صاحب نے بے ساختہ کہا: اوہ ہاں، آج تو جمعہ ہے، جمعہ کو ہمارے لاہور کے دوستوں کو زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے!
سامنے ایک چہرے پر کھسیانی ہنسی نظر آئی، دوسرے چہرے پر جھینپ جانے کا تاثر دکھائی دیا اور تیسرے چہرے پر تیوری چڑھانے کا منظر تھا۔ قاضی صاحب ہنستے ہوئے اپنے کمرۂ عدالت کی طرف بڑھ گئے۔ اس کے بعد اگر خط میں یہ الزام لگایا گیا کہ قاضی صاحب کا رویہ دیگر ججوں کے ساتھ مناسب نہیں تھا، تو یہ بات حیران کن ہرگز نہیں تھی۔ تو اعتبارِ انقلابِ آسماں کرنے سے قبل اگلے جمعہ کو ضرور دیکھ لیجیے کہ عدالت کا کام 12 بجے ختم ہوتا ہے یا اس سے قبل ہی عدالت ویران ہوجاتی ہے:
گر یہ نہیں، تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں!
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: