حال ہی اپنی عہدے سے سبکدوش ہونے والے سابق چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکرٹری مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں نئے جج کی تعیناتی ہورہی تھی، تو آفس سے ایک فائل آئی جس پر لکھا ہوا تھا کہ ”روایت“ یہ رہی ہے کہ نئے جج کی آمد پر اس کےلیے ایک نئی گاڑی خریدی جاتی ہے اور ایک پرانی گاڑی دی جاتی ہے، لہٰذا چیف جسٹس نئی گاڑی خریدنے کی اجازت دے دیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ”پرانی“ گاڑیوں سے مراد 2018ء تک کی گاڑیاں ہیں کیوں کہ اس سے پرانی گاڑی جج کو نہیں دی جاسکتی۔ مزید معلوم کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ 2018ء تک کی گاڑیوں کی مائلیج بھی بہت کم ہے اور کنڈیشن بھی بہت اچھی ہے۔
ان معلومات کے ساتھ قاضی صاحب کے سامنے فائل رکھی گئی، تو انھوں نے نئی گاڑی خریدنے سے انکار کیا اور فائل واپس کردی۔ متعلقہ آفس میں فائل پہنچی، تو وہاں سے فون آیا کہ کیا واقعی قاضی صاحب نے نئی گاڑی خریدنے کی تجویز مسترد کردی ہے…؟ مَیں نے کہا کہ جو کچھ فائل پر لکھا ہے اس کا تو یہی ایک مطلب ہے۔ اس بے چارے افسر کو اس کے بعد بھی دیر تک یہ پریشانی لاحق رہی کہ وہ یہ بات نئے جج کو کیسے بتائیں…؟
پھر ایک اور فائل آئی کہ نئے جج  صاحب کا ذاتی گھر، جو دوسرے شہر میں ہے، ان کی سرکاری رہائش گاہ تصور کی جائے۔ ساتھ ہی یہ فائل بھی آئی کہ نئے جج چونکہ دوسرے شہر سے اسلام آباد آرہے ہیں، تو گھر سے سامان وغیرہ کی منتقلی کےلیے اتنی رقم (لاکھوں میں) انھیں ادا کی جائے۔ مجھے یہ دونوں تجاویز باہم متضاد محسوس ہوئیں۔ مَیں نے اس پر کچھ فائلیں کھنگالیں، تو عجیب طرح کے انکشافات ہوئے (تفصیل کسی اور وقت سہی) اور مَیں نے اپنی رپورٹ قاضی صاحب کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے اس پر مزید اضافہ کیا کہ اسلام آباد میں ججزکالونی میں جج جس مکان میں رہتے ہیں، اس کو خود ججوں نے رہائش گاہ کے بجاے ”ریسٹ ہاؤس“  (آرام گاہ) قرار دیا ہے اور اس پر آرام گاہ کے قواعد کا اطلاق کرتے ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ رہائش گاہ اور آرام گاہ میں فرق کیا ہے…؟ تو معلوم ہوا کہ رہائش گاہ جب سرکار آپ کو دیتی ہے، تو اس میں گھر کے سامان، فرنیچر، اے سی وغیرہ آپ کو خود لانے ہوتے ہیں لیکن آرام گاہ کا سارا خرچہ سرکار اٹھاتی ہے، یہاں تک کہ تولیے اور ٹشو پیپر تک سرکار کے خرچے آتے ہیں، اور جس گھر کو جج کی سرکاری رہائش گاہ قرار دیا جائے اس کی مرمت وغیرہ کا خرچہ سرکار اٹھاتی ہے، تو گویا یہاں مفت رہائش اور وہاں مفت مینٹیننس!
قاضی صاحب انھی جج کو، جن کےلیے یہ دو فائلیں آئی تھیں، یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے کر رپورٹ دیں کہ ججوں کو قانون کون سی مراعات دیتا ہے، ان مراعات میں کون سی ہیں جو ہم نہیں دیتے، اور کون سی ایسی مراعات ہیں جو قانون تو نہیں دیتا لیکن ہم دیتے ہیں۔
رپورٹ کب آئی، اس میں کیا تھا، پھر کیا ہوا، یہ کہانی پھر سہی!
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: