زہ د خزان د پانڑے پانڑے سرہ وریژیدم
خدایہ سیلئی کڑی چی می کور تہ د جانان یوسی
قارئین، مشہورِ زمانہ “ملاکنڈ سازش کیس” میں گرفتار ہونے والے تمام افراد کا تعلق بائیں بازو کی نظریات رکھنے والوں سے تھا۔ ان کو مارشل لا حکومت کی قائم کردہ فوجی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، تو فوجی عدالت کے سربراہ جو ایک کرنل تھے، کی نگاہ سب سے آخر میں کھڑے چھوٹے سے قد کے خوش شکل اور خاموش کھڑے نوجوان پر پڑی، پتا نہیں اُردو بولنے والے کرنل کے دل میں ایسا کیا آیا کہ انہوں نے اس پختون نوجوان کو آگے آنے کا اشارہ کیا اور مہذب اور میٹھے لہجے میں پوچھا کہ کام کیا کرتے ہو…؟ نوجوان نے جواب دیا کہ سیاست، شاعری اور مزدوری۔ فوجی عدالت کے سربراہ کے چہرے پر ایک مہربان شفقت بھری مسکراہٹ پھیل گئی اور قدرے احترام کے ساتھ پوچھا کہ یہ کام کس لیے کرتے ہو…؟ نوجوان نے اسی روانی سے جواب دیا کہ اس لیے کرتا ہوں کہ سیاست میرا آئینی، جمہوری اور بنیادی حق ہے، شاعری اس لیے کرتا ہوں کہ یہ قدرت کی طرف سے ایک نعمت کے طور پر مجھے دی گئی ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کے دُکھ اور مسائل اجاگر کرنا مجھ پر فرض ہے جب کہ مزدوری اس لیے کرتا ہوں کہ اپنے خاندان اور خود کو بھوک سے بچا سکوں۔
سوک دی چاتہ نہ وائی ما ٹولہ دنیا پیژنی
زہ خپلہ عنوان یمہ مضمون یمہ پختون یمہ
کچھ عرصہ بعد اس مشہور مقدمے کا فیصلہ آیا، تو خلافِ توقع تمام ملزمان بری کر دیے گئے تھے۔ وہ نوجوان شاعر اب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن اب بھی اس محسن منصف کو یاد کرتا ہے جس نے انصاف کی خاطر فکری مخالفت کو پسِ پشت ڈال دیا تھا۔ وہ شاعر بعد میں پختون تاریخ کے چند انتہائی مقبول شاعروں میں سے ایک بنا اور دنیا نے اسے رحمت شاہ سائل کے نام سے جانا۔
پشتو زبان کے یہ عظیم انقلابی شاعر اور ادیب رحمت شاہ سائل 1943ء کو صوبہ سرحد (اَب خیبر پختون خوا) کے ملاکنڈ ایجنسی میں تحصیلِ درگئی کے “ورتیر” نامی گاؤں میں امین گل کے گھر پیدا ہوئے۔ پرائمری لیول تک تعلیم حاصل کی لیکن بعد کے نامساعد حالات کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔
قارئین، رحمت شاہ سائل پختون وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ تبھی تو کہتے ہیں کہ:
يا بنجارے شہ يا ملنگ د پختنو د کوسو
سائلہ، دا اعزاز حاصل کڑہ شاہ جہان بہ شی
جب کہ پختون قوم اور وطن کی بے بسی کو اپنی ایک شعر میں کچھ یوں سموتے ہیں کہ:
ستا سپوری زلفی زما وچی شونڈی
دا د دی وطن د غریبئی نخی دی
معروف افسانہ نگار اور شاعر ڈاکٹر ہمدرد یوسف زئی رحمت شاہ سائل کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: سائل صاحب ایک نبض شناس اور امیدوں کے شاعر ہیں۔ تبھی تو کہتے ہیں:
قیصہ زما د مستقبل سائلہ
چی شپہ لری سنگہ بہ سحر نہ لری
سائل کا اعزاز یہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے وہ 1968ء میں جس مقام پر کھڑے تھے، آج بھی وہی کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزاحمت کے چار ادوار دیکھے۔ ایک بانی خدائی خدمت گار تحریک خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا، دوسرا رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کا، تیسرا رہبرِ تحریک (دوم) اسفندیار ولی خان کا اور آج بھی مزاحمت کے اسی سلسلے میں کھڑے ہیں۔”
قارئین، احمد فراز کی مانند نوجوان نسل پر اس کی دل آویز شاعری کے اثرات اور مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے لکھاری اور دانش ور قلندر مومند مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ رحمت شاہ سائل وہ واحد شاعر ہے جسے باقاعدہ ایک سٹریٹ پاور میسر ہے (نوجوان طبقے میں اس کی مقبولیت کی طرف اشارہ تھا) لیکن اس مقبولیت کے باوجود بھی اس نے حیرت انگیز طور پر اپنی شاعری کا معیار کہیں بھی گرنے نہیں دیا بلکہ اسے مسلسل ارتقائی عمل ہی سے گزارتے رہے۔
راشہ ٹیکسلا تہ د کنڈرو ژبہ زدہ کہ
سوات او چین بہ ٹول لکہ بامیان درتہ خکارہ شی
ترجمہ: کبھی ٹیکسلا کے کھنڈرات کی زبان تو سیکھ لے، سوات اور چین بھی بامیان کے مانند دکھائی دیں گے۔
یہی وہ گہرا مشاہدہ اور وسیع مطالعہ ہے جس نے رسمی تعلیم سے محروم رحمت شاہ سائل کو شاعروں کی اس صف میں کھڑا کیا ہے جہاں اُردو نے فیض اور سندھی زبان نے شیخ آیاز کا انتخاب کیا لیکن یہاں رحمت شاہ سائل کو ایک فطری برتری اس لیے حاصل ہے کہ مذکورہ دونوں شعراء اپنی آسودہ پسِ منظر کی بدولت اعلا تعلیمی اداروں سے عہدوں اور منصبوں تک رسائی رکھتے ہیں جب کہ رحمت شاہ سائل ایک غریب بیوہ کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ ساری عمر ایک دیہاتی علاقے کی چھوٹی سی ٹیلرنگ شاپ میں سارا سارا دن ایک سلائی مشین پر جھکے اس سے اپنے بچوں کا رزق نکالتا رہا لیکن کمال یہ ہے کہ ان حالات میں وہ شاعری بھی کر گیا اور شاعری بھی کس غضب کی۔
زہ خو بہ دے سترگو تہ ہم زدہ کڑمہ پختو ژبہ
تہ بہ پرے وڑومبے ٹکے سہ وائے ما تہ اووایہ
ترجمہ: چلو میں تو تمھاری آنکھوں کو پشتو سکھا دوں گا لیکن یہ تو بتانا کہ تم اس زبان سے پہلا لفظ کیا بولو گے۔
رحمت شاہ سائل کی شاعری رومان اور انقلاب کے دو پاٹوں کے درمیان ہمیشہ بہتی رہی اور اس دریا کا منبع وہ گلیشئیر تھے جو عوامی جذبوں اور احساسات کے ساتھ ساتھ مسائل اور ضرورتوں سے پھوٹتے رہے۔ ان حالات سے جن جذبات اور احساسات نے جنم لیا وہ سائل کو و ہاں لے کر گیا جہاں سے غم جاناں سے غم دوراں کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے۔
د خوبولو سترگو غیگے دے منم خو اشنا
چالہ بہ ورشی پہ شڑنگا د زنزیرونو کے خوب
ترجمہ: تمھاری خوابناک آنکھوں سے انکار کس کو ہے لیکن زنجیروں کی اس جھنکار میں نیند کس کو آئے گی۔
قارئین، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ رحمت شاہ سائل کا ذاتی تعلق محروم اور پسے ہوئے طبقے سے ہے اور یہی وجہ تھی کہ اس کا شعور اسے وہاں لے کر گیا جہاں سے ان طبقات کے لیے عقیدت بھرا بائیں بازو کا سرچشمہ پھوٹتا رہا۔ لیکن انقلاب کے ساتھ ساتھ اس کی شاعری ایک گہری رومانویت اور تہذیبی رچاؤ کی حامل بھی ہے جو روایت اور جدت کا ایک حسین امتزاج لیے ہوئے ہیں۔
وختہ! زہ تہ خہ لوبی پہ زڑہ د سائل وکڑہ خو
زہ پوئی پہ مطلب د زڑہ چاودون یمہ پختون یمہ
قارئین، رحمت شاہ سائل نے کہتے ہیں کہ: زندگی مقصد کے بغیر کچھ نہیں۔ اگر ادب عوام کو کچھ دینے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، تو یہ بے کار چیز ہے۔ تحریر کے لیے تحقیق، مشاہدہ اور سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ لکھتے ہیں یا عوام کے سامنے تحریری طور پر لاتے ہیں کہ کیا ہم اس کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں…؟ عوام کو کسی قسم کی سوچ، فکر اور نظریہ دے رہے ہیں۔ ادب ایک وسیع میدان ہے لیکن اس میں صرف چاہنے پر اگر کوئی کسی صنف میں طبع آزمائی کرے گا، تو لازمی طور پر نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔”
علی اُتمان خیل کے بقول: سالہا سال پر محیط ذاتی تعلق نے مجھے رحمت شاہ سائل کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت مدد دی اور میری یہ رائے بنتی گئی کہ باوجود ایک انتہائی مقبول شاعر کے وہ اپنی شاعری کو کیش کرانے میں حد درجہ ناکام رہے کیوں کہ وہ ایک شاعر ہے اور شاعر ہی رہے دکان دار نہ بن سکے۔ حالاں کہ تیسرے درجے کی شاعری کرنے والے بھی “مارکیٹنگ” میں کمال رکھنے کے سبب کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اگر اعلا تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ رحمت شاہ سائل یہ “کمال” بھی حاصل کر لیتے، تو کم از کم مالی حوالے سے تو ان کے دن بھر تو جاتے۔ کچھ دن پہلے میں نے نئی تخلیقات کے حوالے سے پوچھا، تو بتایا کہ تین کتابوں کے مسودے پڑے ہیں لیکن پرانی کتابیں بک جائیں اور کچھ پیسے ہاتھ آئیں، تو اشاعت کے لیے نئے مسودے دے دوں گا۔”
قارئین، عظیم فلسفی شاعر اور مصور غنی خان نے اپنی انگریزی کتاب “دی پٹھان” میں لکھا ہے کہ پختون موسیقی سے پیار تو کرتے ہیں لیکن موسیقی بجانے والے (موسیقار) سے نفرت کرتے ہیں۔ پتا نہیں غنی خان نے اپنی رائے صرف موسیقی اور موسیقار تک ہی کیوں محدود رکھی ورنہ اس سے زیادہ انتہا پسند رویہ تو ہمارا ہر فن خصوصاً شاعری اور شاعر کے حوالے سے ہی ہے۔ ورنہ فیض اور شیخ ایاز کے مقابلے کا یہ بے بدل ترقی پسند پشتو شاعر ایسی زندگی گزارتا جو وہ گزار رہا ہے…؟ لیکن ہم نے خوشحال خان خٹک کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کیا تھا جو رحمت شاہ سائل کے ساتھ کر لیتے۔ پتا نہیں ہمارے جینز میں کیا خرابی ہے کہ ہمیشہ ہمارے ہیروز بڑے فن کار اور آزادی کے جنگجو نہیں ہوتے بلکہ قاتل اور ڈاکو ہی ہوتے ہیں۔ گر کسی کو شک ہے، تو ہماری کہانیوں، ڈراموں اور فلموں کا ریکارڈ ہی چیک کر لیں۔ وہاں خوشحال خان خٹک سے رحمت شاہ سائل تک اور پیر روخان سے باچا خان تک ایک بھی قد آور شخصیت دکھائی نہیں دے گا لیکن اپنے وقت کا ہر ڈاکو، لٹیرا اور مسخرا چھایا ہوا ہے۔ لیکن اس احمقانہ سوال سے ہم پھر بھی باز نہیں آتے کہ آخر ہماری تباہی کے اسباب ہیں کیا….؟
قارئین، موصوف پشتو شاعری پر مشتمل کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ جن میں ریبار، سرہ بسری، د ویر پہ چم کے وار د نغموں دے، د لمبو سوری، درد چی د سڑیکو سانگی اوسپڑلی، آخری سندرہ، د وینو رنگ پہ لمبو سنگہ خکاری، حالات چی وور وروی اور د خائستونو د سپرلی بادونہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ باچا خان مرکز پشاور سے شائع ہونے والے ماہانہ رسالہ “پختون” کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 14 اگست 1995ء کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کو لمبی عمر اور اچھی صحت عطا فرمائے تاکہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے سے پختون وطن کی آب یاری جاری رکھ سکے، آمین۔
__________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔