جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
  لفظ ’’اُستاد‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سکھانے والا، کامل فن، معلم اور راہ نما کے ہیں۔
ہم سب کو اس بات کا علم ہے کہ اُستاد ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی معاشرے میں جہالت کے اندھیرے کو ختم کرتی ہے۔ اُستاد معاشرے کا ایک ایسا پھول ہے جس کی خوش بُو سے معاشرے میں محبت کا رشتہ پروان چڑھتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا شجرِ سایہ دار ہے جو معاشرے میں امن قائم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے معتبر پیشہ معلم ہی کا ہے۔ تبھی تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
قارئین، اُستاد کی عظمت اور شخصیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب ناممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہے…… مگر آج یہ جسارت کرکے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی مدد سے اُستادِ محترم کی شخصیت پر خامہ فرسائی کرنے جارہا ہوں۔
خوب صورت ناک و نقشہ، کشادہ پیشانی، بڑی آنکھیں اور اُن پر اُوپر سے کالا چشمہ، سفید داڑھی اور مناسب موچھ، با رُعب شخصیت، دھیمی طبیعت کے مالک، چال ڈھا متناسب، شیریں لب و لہجہ، صوم و صلات کے پابند، بھاری بھر کم جسم، لمبے ہاتھ، بازوں تگڑے، سینہ چوڑا، کندھے مناسب اور گھٹی گردن سے قدرے اوپر چہرے کی خط وخال پہ نظر ڈالی جائے، تو ان کی گندمی رنگت میں اپنی اک خاص جاذبیت موجود دکھائی دیتی تھی۔ وجاہت اور شرافت کا یہ پیکر کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے استادِ محترم جناب محمد خان صاحب ہی تھے۔گاؤں کے چھوٹے بڑوں میں ’’خان‘‘ کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔
استادِ محترم (مرحوم) 02 فروری 1954ء کو جنت نظیر وادیِ سوات کے مشہور گاؤں کوزہ درش خیلہ کے ایک معزز گھرانے میں صنوبر خان کے گھر پیدا ہوئے۔
پرائمری تا میٹرک تعلیم گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برہ درش خیلہ سے حاصل کی۔ بیچلر (B.A) اور ماسٹر (M.A) اسلامیات کی ڈگری پشاور یونی ورسٹی، جب کہ یونی ورسٹی آف کراچی سے قانون(LLB) کی ڈگری حاصل کی، لیکن رغبت درس و تدریس کی طرف ہی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ معلمی کا پیشہ اپنایا اور 05 نومبر 1975ء کو گورنمنٹ ہائی سکول رانیال شانگلہ میں ڈرائنگ ماسٹر کے طور پر چارج سنبھالا۔
قارئین، موصوف نہایت شفیق، شریف، دیانت دار، ایمان دار اور پُرخلوص شخصیت کے مالک تھے۔ علمی اور عملی میدان میں اپنی مثال آپ تھے۔ زندگی کا اصل مقصد اپنے شاگردوں کو علم و ادب کے ساتھ اخلاقیات کے میدان میں آگے بڑھانا اور ہمیشہ اپنے شاگردوں کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند رہنا ہی ان کا خاصا تھا۔ آپ کے پُرخلوص اور مشفقانہ رویے ہی کے صلے میں رب ذوالجلال نے اُنھیں بااخلاق، باکردار اور باصلاحیت اولاد سے نوازا۔ کیوں کہ بچے بھی والد کے نقش و قدم پر چل کر نہایت بااخلاق اور باکردار زندگی گزار رہے ہیں۔
اُستاد صاحب نے اپنے بچوں اور بچیوں دونوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ دونوں میں تخصیص نہیں کیا۔ خاص طور پر لڑکے تو اعلا عہدوں پر فائز ہیں، جن میں ڈاکٹر محمد اعظم خان (میڈیکل آفیسر ذاکر خان شہید ہسپتال مٹہ) جب کہ اصغر خان جو چارٹر اکاؤنٹنگ کرچکے ہیں، گاؤں کوزہ درش خیلہ کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وقت عوامی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمال ناصر خان بی ایس آر کی ٹیکچر(BS Architecture)، ڈاکٹر ظہیب ناصر خان اور ڈاکٹر شہباز خان سب اعلا تعلیم یافتہ ہیں۔
قارئین، استادِ محترم اصل میں ہمیں ڈرائنگ سکھاتے تھے، پر اخلاقیات اور علم کی اہمیت پر بھی لیکچر دیا کرتے تھے۔ موصوف اپنے مضمون پر خوب عبور رکھنے کے ساتھ دوسرے مضامین میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ ہمیں بھی دوسرے مضامین میں مہارت حاصل کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ بچوں کو ایک اچھے، سچے اور کھرے مسلمان بننے کی نصیحت کرتے۔ محنت کو کام یابی کی کنجی قرار دیتے ۔ بہ قولِ شاعر
رہبر بھی یہ ہم دم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
اُستادِ محترم جیسی شخصیت پر بحث کرتے ہوئے سعید احمد شامیزئی لکھتے ہیں: ’’استاد صاحب ایک زبردست انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف، باادب، مخلص اور باکردار شخصیت کے مالک تھے۔‘‘
سابقہ پرنسپل اور موجودہ ’’غم خادی تڑون‘‘ تنظیم کے رکن محترم خادم اللہ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں: ’’استادِ محترم محمد خان کا شمار گاؤں کوزہ درش خیلہ کی معزز اور ممتاز شخصیات میں ہوتا تھا۔ گاؤں بھر میں جب کوئی مسئلہ جیسے لڑئی جھگڑا یا کوئی تنازع پیش آتا، تو موصوف اپنا کردار نبھاکر اُن کو خوش اُسلوبی، خلوصِ دل اور بغیر کسی لالچ کے حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ اس کے علاوہ وہ دوستی نبھانا بھی خوب جانتے تھے۔ کبھی دوسروں کی غیبت یا برائی نہیں کرتے، بلکہ ہمیشہ روا داری، بھائی چارے اور پُرامن معاشرے کے خواہاں تھے۔‘‘
ڈگری کالج مینگورہ کے سابق پرنسپل فضل سبحان افغانی صاحب لکھتے ہیں: ’’استاد مرتا نہیں اور نہ ریٹائر ہی ہوتا ہے۔ اگرچہ محمد خان آج ہم میں موجود نہیں، پر اُن کی یادیں ہمیشہ ہم میں رہیں گی۔‘‘
قارئین، استادِ محترم اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے ساتھ ایک کھرے، مہمان نواز اور دین سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ اس بات کا اعتراف اُن کے بھائی عدالت خان اور محمد علی صاحب بھی کرتے ہیں۔ محمد جان (بھائی جان) مرحوم بھی اُن کو باپ کا درجہ دیتے تھے۔
قارئین، یہ عظیم شخصیت اور ہمارے استادِ محترم گذشتہ سال یعنی 19 اگست 2023ء کو اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ اُن کا جنازہ کوزہ درش خیلہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا جاتا ہے۔
دعاگو ہوں کہ استقامت کے پہاڑ اور پاکیزہ کردار کے مالک استادِ محترم محمد خان کو ربِ کائنات جنت الفردوس میں اعلا مقام عطا فرمائے، آمین!
ایامِ شکستہ تو گزر جائیں گے لیکن
استاد کے ہونٹوں کی ہنسی یاد رہے گی
___________________
راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 02 مئی 2024ء کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرف قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: