ہماری زندگی سے رفتہ رفتہ ختم ہونے والی رسموں میں سے خیبر پختون خوا کی “بلنہ” (دعوت) نامی رسم بھی ہے۔ مذکورہ رسم میں عام طور پر لوگ عید کے موقع پر گاؤں کے تمام رشتہ داروں کے گھر جا کر کھانا کھاتے تھے۔ اب یہ رواج کافی حد تک ختم ہوچکا ہے اور یہ رواج اب چند ایک گھروں تک محدود ہو چکا ہے۔ دور کے رشتہ دار عید پر ایک دوسرے کے پاس جا کر گلے شکوے ختم کر کے ایک دوسرے کے گھر جو بھی کھانا تیار ہوتا، وہ مل کر کھاتے تھے۔ یہ سلسلہ اپنے خاندان کے سب سے بڑے فرد کے گھر سے شروع ہوتا تھا اور آخری گھر پر جا کر ختم ہو جاتا تھا۔
قارئین، بعض علاقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاؤں کے تمام لوگ اپنے قبیلے کے بڑے فرد کے حجرے میں اکھٹے ہو کر کھانا کھاتے تھے جو یک جہتی اور پیار و محبت کی سب سے بڑی علامت ہوتی تھی۔ عید پر زیادہ تر باسمتی چاول پکائے جاتے تھے جس کے ساتھ دیسی گھی، دہی اور سالن ہوا کرتا تھا۔
“بلنہ” نامی اس رواج کا فائدہ یہ ہوتا کہ اس سے خاندان والوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر ہونے والی ناراضگیاں اور دوریاں ختم ہو جاتی اور مل کر کھانا کھا کر عید کی خوشیوں کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر دیا جاتا۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ علاقے میں موجود غریبوں کو بھی اچھا کھانا نصیب ہوتا تھا۔ ہمارے گاؤں (ہریانکوٹ) میں  پہلے پہل عید کے موقع پر خاص خاص گھروں میں پکوان پکتے اور پھر گاؤں والو کو حجروں میں بلوا کر ان کوں یہ پکوان کھلائے جاتے۔ جب کہ محلے بھر کی عورتیں ایک گھر میں جمع ہوکر بلنہ (دعوت) کرتے۔
قارئین، وہ خوب صورت اور یاد گاری دن تھے۔ کیوں کہ اب تو زندگی ایک مشین کی مانند ہے۔ دلوں سے وہ محبت ختم ہوئی۔ عید مبارک باد دینا بھی اب  صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہوکر رھ گئی ہے اور بس!
________________________
اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: