دنیا کو وجود میں آئے اب تک کی سب سے بڑی ایجاد زبان ہی ہے جو رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ اور معاملاتِ زندگی کو احسن طریقے سے چلانے کی بڑی وجہ ہے۔
زبانوں میں مادری زبان کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس میں لکھنا، پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں عموماً مادری زبان ہی ذریعہ تعلیم ہوتی تھی، تبھی تو ایک بندہ علوم و فنون میں مہارت رکھتا تھا اور ملک و قوم کی خدمت میں اپنا فعال کردار بھی ادا کرتا تھا۔
اب اگر ہماری مادری زبان پشتو کی بات کی جائے، تو یہ علاقائی زبانوں میں پرانی اور ترقی یافتہ زبان ہے۔ مملکتِ خداداد میں پشتو زباں بولنے والوں کی شرح تقریباً 18 فی صد ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختون خوا، بلوچستان، پنجاب کے ضلع میانوالی اور اٹک کے علاوہ کراچی کے بہت سے علاقوں میں پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس پر فارسی کی گہری چھاپ ہے اور رسم الخط عربی طرز کا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا سلوک بڑا ظالمانہ ہے۔ نسلِ نو پشتو زبان سے روز بروز ناآشنا ہوتی جا رہی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی اس کم فہمی پر ایک طرح کا فخر بھی کرتی ہے۔ اس طرح پشتو میں ماسٹر کرنے والے کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہوتا، جو دوسری زبانوں کے ڈگری ہولڈروں کو حاصل ہوتا ہے۔
قارئین، بھلا ہو اقوامِ متحدہ (United Nations Organization) کا، جس نے مادری زبانوں کے لیے ایک دن مختص کیا ہے جس پر اور کچھ نہیں تو کم سے کم یاد دہانی تو ہوجاتی ہے۔
21 فروری دراصل مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔ اس کو منانے کا مقصد صرف مادری زبانوں کو تحفظ دینا ہی ہے۔ اس دِن کو منانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے 17 نومبر 1999ء کو اعلان کیا تھا اور بعد میں 2002ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے تحت یہ کہا گیا کہ مادری زبانوں کا تحفظ اور تمام زبانوں کو بچانے کے لیے عوام الناس سامنے آئیں۔ یوں 16 مئی 2007ء کو اقوامِ متحدہ نے اس بابت ایک قرارداد پاس کی اور 21 فروری 2008ء کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ تب سے اب تک اس دِن کو بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن مادری زبان کے حق میں جلسے جلوس، مشاعرے اور ادبی تقاریب کا خصوصی انعقاد کیا جاتا ہے جو کہ خوش آیند بات ہے۔ لیکن اصل میں یہ دِن منانا کافی نہیں۔ ہمیں مزید کام کرنا ہوگا، جتنا کام ہو رہا ہے وہ تو اُونٹ کے منھ میں زیرے کے برابر والی بات ہے، سب سے پہلے ہمیں یہ زبان سکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر رایج کرنی چاہیے۔ اخبارات، رسائل اور سائن بورڈ وغیرہ پشتو میں لکھنے چاہئیں۔
قارئین، دیکھیں نا اس تحریر میں پشتو کی وکالت ہو رہی ہے اور وہ بھی اُردو زبان میں۔ اس سے بڑی زبوں حالی اور کیا ہوسکتی ہے…؟ لیکن شکر یہ ہے کہ اُردو کے ذریعے ہم اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار تو کر دیتے ہیں۔ اگر روزنامہ آزادی کی طرح ایک پلیٹ فارم پشتو زبان میں بھی مہیا کیا جائے، تو از چہ بہتر…؟
اُردو بھی برصغیر کے مسلمانوں کا عظیم ثقافتی ورثہ ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ عوام میں مقبول تو ہے ہی، لیکن حکومتی سطح پر اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ قومی یک جہتی کی اس علامت کو قائد اعظم محمد علی جناح نے 25 فروری 1948ء کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا، جسے قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور بھی کیا تھا۔ آئینِ پاکستان 1973ء میں اُردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے پندرہ سالوں میں ساری مملکت میں اسے دفتری سطح پر رایج کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ نے 8 ستمبر 2015ء کو دستور کے آرٹیکل 251 کے مطابق قومی زبان اُردو کو ریاست کے تمام شعبہ جات میں بطورِ دفتری، سرکاری اور تعلیمی زبان نافذ کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن تاحال اس پرعمل نہیں کیا گیا ہے۔ دفتروں میں انگریزی کا بول بالا ہے۔ مقابلے کے امتحانات انگریری میں لیے جارہے ہیں، تاحال ہم انگریز کے ذہنی غلام ہیں۔
دوسری زبانوں میں مہارت حاصل کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنی زبانوں کو یکسر نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے…؟ بقولِ خوشحال خان خٹک؛
پردئی ژبہ زدہ کول کہ لوئی کمال دے
خپلہ ژبہ ہیرول بے کمالی دہ
__________________________________
قارئین، ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: