پاکستان میں پہلی بار معلومات تک رسائی کا قانون یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن (Right to information) 2002ء کو نافذ کیا گیا۔ جب کہ 2004ء میں حکومت نے اس قانون کو موثر بنانے کےلیے قواعد بنائے۔
2004 میں متعارف ہونے والا یہ قانون معلومات تک انتہائی محدود رسائی دیتا تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرکاری راز داری کے ایکٹ کی موجودگی تھی۔ جب کہ اس کا دایرہ کار بھی صرف وفاقی حکومت اور اس کے اداروں تک محدود تھا۔ لیکن 2010ء میں 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 19 (A) کو شامل کیا گیا۔ جس کے مطابق کوئی بھی شہری قوانین کے تحت مفادِ عامہ سے متعلق کسی بھی محکمے سے معلومات حاصل کر سکتا ہے۔
اسی طرح 2017ء میں قومی اسمبلی نے مشرف دور میں منظور شدہ “رائٹ ٹو انفارمیشن آرڈیننس 2002” کو پاس کرتے ہوئے “دی رائٹ آف ایکسیس ٹو انفارمشن ایکٹ 2017” (The right of access to information act 2017) پاس کیا۔ جس کے تحت کوئی بھی شہری کسی بھی پبلک باڈی کے بارے میں کوئی سوال ہو، تو وہ متعلقہ ادارے سے ایک درخواست کے ذریعے پوچھ سکے گا۔ اگر اسے دس دن کے اندر جواب نہیں دیا جاتا، تو وہ 30 دن کے اندر “پاکستان انفارمیشن کمیشن” (Pakistan Information Commission) میں اپیل دایر کر سکتا ہے۔ جس پر کمیشن 60 دن کے اندر فیصلہ سنانے کا پابند ہے۔
قارئین، قانونِ مذکور کے تحت کچھ معلومات کو استثنیٰ حاصل ہے۔ جن میں ایسی معلومات شامل ہیں جو پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کریں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی جرم کا باعث بنتی ہوں یا کسی انکوایری کی تفتیش کو متاثر کرتی ہوں۔ یہ معلومات اگر کسی مخبر کی نشان دہی کرتی ہوں۔ ملک کی سیکورٹی یا کسی کی نجی معلومات کو بھی استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایسی معاشی معلومات جن کے قبل از وقت افشا سے نقصان کا خدشہ ہو۔ پاکستان کا دفاع، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اثر پذیری کو نقصان کا خدشہ ہو، تو وہ معلومات بھی نہیں دی جا سکتیں۔ یا پھر ایسی معلومات جو کسی فرد کی آزادی، صحت اور تحفظ کو خطرے میں ڈالتی ہوں۔ زیرِ سماعت کیس متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ تاہم یہ تمام معلومات 20 سال کے بعد پبلک کی جا سکتی ہیں۔
شیئرکریں: