برِصغیر پاک و ہند کی سیاست اور تحریکِ آزادی کی تاریخ میں چند ہی خاندان ایسے ہیں جنہوں نے قربانی، مزاحمت اور عوامی خدمت کی لازوال روایت قائم کی۔ ان میں خان عبدالغفار خان (باچا خان) کا خانوادہ صفِ اول میں شمار ہوتا ہے۔ اسی خانوادے کی ایک قد آور اور فیصلہ کن شخصیت بیگم نسیم ولی خان تھیں، جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، جرات اور غیر متزلزل عزم سے یہ ثابت کیا کہ قیادت محض وراثت کا نام نہیں، بل کہ کڑے وقت میں اپنے نظریے اور عوام کے ساتھ ڈٹ جانے کا نام ہے۔ وہ صرف ایک سیاسی رہ نما کی شریکِ حیات نہیں تھیں، بلکہ خود ایک ایسی متحرک قوت تھیں جس نے پاکستان کی جمہوری سیاست کے کئی موڑ متعین کیے۔
بیگم نسیم ولی خان کی شخصیت کی تشکیل میں دو عظیم سیاسی خانوادوں کا گہرا اثر نمایاں تھا۔ ایک طرف وہ خدائی خدمت گار تحريک کے بانی باچا خان کی بہو اور اس تحریک کے فکری و سیاسی رہ نما خان عبد الولی خان کی اہلیہ تھیں، تو دوسری طرف ان کا اپنا تعلق مردان کے ایک معروف اور فعال سیاسی گھرانے سے تھا۔ وہ باچا خان کے قریبی ساتھی اور تحریک کے ممتاز رہ نما امیر محمد خان ہوتی کی صاحب زادی تھیں۔ اس دوہرے سیاسی و نظریاتی پسِ منظر نے ان کے مزاج میں فطری طور پر وہ پختگی، عوامی شعور اور سیاسی آگہی پیدا کر دی تھی جو آگے چل کر ان کی شناخت بن گئی۔
ان کی ازدواجی زندگی کا آغاز بھی ایک ایسے دور میں ہوا جب ‘ولی باغ’ سیاسی جبر اور ریاستی دباؤ کی علامت بن چکا تھا۔ گھر کے مرد یا تو پابندِ سلاسل تھے یا مسلسل نظر بندی کا سامنا کر رہے تھے۔ اگرچہ سیاست ان کے گھر کی دہلیز پر موجود تھی، تاہم بیگم نسیم ولی خان نے عملی سیاست میں قدم اُس وقت رکھا جب حالات نے انہیں فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ستر کی دہائی میں، ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی، اور "حیدر آباد سازش کیس” کے تحت خان عبدالولی خان سمیت تمام مرکزی قیادت کی گرفتاری نے پارٹی کو شدید بحران سے دوچار کر دیا۔ قیادت کے اس خلا میں، ایک کالی چادر اوڑھے بیگم نسیم ولی خان چار دیواری سے نکل کر میدانِ سیاست میں آئیں اور مایوس و منتشر کارکنوں کے لیے اُمید اور تسلسل کی علامت بن گئیں۔
اس مرحلے پر بیگم نسیم ولی خان کا کردار محض اپنے شوہر کے دفاع تک محدود نہ رہا، بلکہ انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے وسیع تر اپوزیشن کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بھٹو حکومت کے خلاف قائم ہونے والے "پاکستان قومی اتحاد” (PNA) کی تحریک میں وہ نو جماعتوں کے درمیان ایک فعال اور بااثر آواز بن کر اُبھریں۔ ان کی سیاسی اثر پذیری کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ "مجھے ولی خان کی جگہ بیگم صاحبہ کو گرفتار کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ انہوں نے میری حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔”
قارئین، پختون معاشرے کی مضبوط روایات کے باوجود، جہاں خواتین کی سیاسی موجودگی کو محدود سمجھا جاتا تھا، بیگم نسیم ولی خان نے عملی سیاست میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر کے اس تصور کو چیلنج کیا۔ وہ خیبر پختون خوا سے عام انتخابات میں بہ راہِ راست نشست جیتنے والی پہلی خاتون بنیں، اور یوں انہوں نے ثابت کیا کہ سیاسی بصیرت، جرات اور مستقل مزاجی کی صورت میں صنف کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ان کی قیادت نے بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کو نہ صرف منظم کیا بل کہ اسے پُرامن جمہوری جدوجہد کی راہ پر استوار رکھنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔
بیگم نسیم ولی خان کی سیاست محض احتجاجی نعروں یا وقتی ردِعمل تک محدود نہیں تھی، بل کہ وہ ایک بالغ نظر مدبر (Stateswoman) کے طور پر سامنے آئیں۔ انہوں نے شدید سیاسی دباؤ اور ذاتی مصائب کے باوجود آئین کی بالادستی، جمہوری اقدار اور صوبائی خودمختاری جیسے بنیادی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ پارٹی نظم و ضبط، نظریاتی وابستگی اور عدمِ تشدد کے فلسفے سے ان کی وابستگی زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہی، جو باچا خان کی سیاسی وراثت کا عملی تسلسل تھا۔
بیگم نسیم ولی خان، جنہیں عوام محبت سے "مور بی بی” کہتے تھے، کی وفات کے ساتھ پاکستان کی سیاست کا ایک باوقار، اصول پسند اور مزاحمتی عہد اختتام پذیر ہوا۔ وہ محض ایک فرد نہیں بل کہ ایک عہد ساز علامت تھیں، جنہوں نے آمریت کے خلاف جمہوری مزاحمت کو اخلاقی وقار اور نظریاتی استقامت عطا کی۔ آج جب پاکستان میں خواتین کی سیاسی شمولیت اور جمہوری استحکام پر گفتگو ہوتی ہے، تو بیگم نسیم ولی خان کا نام ایک روشن اور معتبر حوالہ بن کر اُبھرتا ہے۔ ان کی زندگی آنے والی نسلوں کے لیے یہ واضح پیغام ہے کہ جب مقصد عظیم ہو اور ارادے پختہ ہوں، تو تاریخ خود راستہ بنا لیتی ہے۔
_______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
