رُکنِ صوبائی اسمبلی خیبر پختون خوا داود شاہ آفریدی نے ‘ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس’ (Action in aid of civil power ordinance) کے خاتمے سے متعلق قرارداد پیش کی، جسے کثرتِ رائے سے منظور کرلی گئی۔
قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ فاٹا صوبے کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے یہ آرڈیننس اب غیر ضروری ہے۔ قرارداد کے مطابق یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اور صوبے کی آئینی عدالت بھی اسے انسانی حقوق کے منافی قرار دے چکی ہے۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ‘ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس’ کو خیبر پختون خوا اور ضم شدہ اضلاع سے ختم کیا جائے۔ ایوان نے اس پر رائے شماری کے بعد متفقہ منظوری دی۔
اسمبلی اجلاس میں امن و امان کی صورتِ حال پر بحث کے دوران میں پولیس حکام کو جمعرات کے روز طلب کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ سپیکر بابر سلیم سواتی نے ہدایت کی کہ ‘سی سی پی او’ اور ‘ڈی آئی جی سیکیورٹی’ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیں گے۔ ایوان نے صوبے میں سیکیورٹی سے متعلق ایک خصوصی کمیٹی کے قیام کی بھی منظوری دی جس میں تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز شامل ہوں گے۔ سیکیورٹی حکام اس کمیٹی کو موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دیں گے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رُکنِ صوبائی اسمبلی نثار باز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ؛ قرارداد تو منظور ہوگئی۔ خدا کریں کہ اب اس قراداد پر عمل در آمد بھی ہو۔ ہم نے قراداد پر اس امید کے ساتھ دستخط کی ہے کہ پختون خوا کے سرزمین پر اس کالے قوانین کا خاتمہ ہو۔”
یاد رہے کہ مذکورہ قانون کو 2019ء میں تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے گورنر شاہ فرمان کے وساطت سے ایک آرڈیننس جاری کے ذریعے نافذ کیا تھا۔