ماسوائے چند پاکستانی افراد اور جماعتوں کے باقی پورے دنیا کے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی و دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی اہداف کا حصول باچا خان کے فلسفۂ عدمِ تشدد پر کاربند رہنے سے با آسانی ممکن ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ گولی بندوق کا کھیل مکمل طور پر بم بارود میں تبدیل ہونے کے بعد اب ایٹم یا نیوکلیئر کے طرف جا رہا ہے جو نہ صرف عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے، بل کہ اس سے زیادہ نقصانات کسی اور کو نہیں بل کہ اس خطے اور اس خطے میں جہالت کے شکار پختونوں ہی کو ہے۔
اس وقت پختون قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی خدائی خدمت گار تحریک کے بانی، عدمِ تشدد پر مبنی سیاسی فلسفے کے علم بردار اور پختون قوم میں سیاسی و تعلیمی شعور کے اجاگر کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے باچا خان کی 37 ویں اور قائد جمہوریت خان عبدالولی خان کی 19 ویں برسیوں کے اجتماعات اور تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اجتماعات اور تقریبات ایک ایسے وقت منعقد کیے جا رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے باوجود پاکستان کے ساتھ تعلقات دن بہ دن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکا سے ہفتہ وار بنیادوں پر لاکھوں ڈالر وصولی کے باوجود کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ، داغش، اویغور اور ازبکستان اسلامک موومنٹ جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کی پھلتی پھولتی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں۔ عالمی سطح پر کافی محنت اور مشاورت سے ترتیب دی جانے والے حکمتِ عملی کے تحت پاکستان اور افغانستان کے درمیان آنکھ مچولی بھی جاری و ساری ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم سے ہر جارح قوت نے مظلوم کو مزید مظلوم بنانے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہمیشہ مذہبی کارڈ یا نعرہ استعمال کیا ہے۔ کرد مذہبی شخصیت محمود غزنوی سے لے کر اخون درویزہ اور بعد میں افغانستان کے نام نہاد جہادی، اسلامی اور طالبان کے علاوہ پاکستان کی جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے اسلام (س) اور دیگر گروہ اور جماعتوں سے بھی انہی مقاصد کے حصول کےلیے بھر پور کام لیا جا رہا ہے۔
چند روز قبل کور کمانڈر ہاوس پشاور میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کے رہ نماؤں اور عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔ ملاقات میں سوائے جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمان کے باقی تمام پختون النسل یا پشتو بولنے والے سیاسی رہ نما شامل تھے جن میں وزیرِ اعلا علی امین گنڈاپور، گورنر فیصل کریم کنڈی، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سابق وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی، وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان، جمیعت علمائے اسلام کے صوبائی سربراہ مولانا عطاء الرحمان، پاکستان تحریکِ انصاف کے بیرسٹر گوہر سمیت دیگر شامل تھے۔ گھنٹوں پر محیط گفت و شنید کی اس محفل کا مقصد نہ صرف پختون خوا کے طول و عرض میں دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تبادلہ خیال اور اس سے نمٹنے کے لیے تجاویز اور حکمت عملی مرتب کرنا تھا بل کہ مقتدر قوتوں کا افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کا پاکستان سے بغاوت یا وفاداری کی بہ جائے انحراف کو بھی زیرِ غور لانا اور اپنے ہی ہاتھوں کے تراشے ہوئے بتوں کو سبق سکھانے کے لیے اکابرین کو اعتماد میں لینا تھا۔ گفت و شنید کی اس محفل میں کس نے کیا بولا اور کس طرح بولا، وہ تو ویڈیو کیمروں نے محفوظ کیا ہوگا مگر اس محفلِ زعفران میں شریک کئی ایک بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان کے ذرائع ابلاغ یا نجی ٹیلی ویژنز کے نمائندوں یا اینکر پرسنز سے بات چیت کے بعد ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہوا ہے۔ ماضیِ قریب کے طرح اس بار بھی نہ صرف ایمل ولی خان بل کہ مرحوم باچا خان اور خان عبدالولی خان پر تنقید یا کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے اور اس کارِ خیر میں جماعت اسلامی والے کچھ زیادہ ہی سرگرم ہیں۔ بہ ہر حال جماعتِ اسلامی اور باچا خان کی سیاسی وارث جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان لفظی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے بل کہ یہ جنگ جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بعد میاں طفیل محمد کے پارٹی سربراہ بننے کے بعد اُس وقت شروع ہوئی جب افغانستان میں سابقہ سوویت یونین (روس) کی افواج کے داخلے کے بعد افغانستان کی سرزمین سے امریکی اتحادیوں نے جنگ کا آغاز کیا۔
قارئین، اس تحریر کا مقصد ہرگز کسی کی وکالت کرنا نہیں مگر بہ حیثیتِ ایک ادنیٰ لکھاری حقیقت کو حقیقت لکھنا فرض سمجھتا ہوں۔ افغانستان سے کس نے کتنا لیا، افغانستان کی جنگ سے کس نے کتنا فائدہ اٹھايا، وہ تو اُس دورانِ جنگ کی حمایت یا مخالفت کرنے والوں کے اثاثہ جات کو دیکھ کر بہت آسانی سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس جنگ کی جس طرح مخالفت باچا خان اور ولی خان نے کی، آج اس کی تائید و ستائش عالمی سطح پر کی جاتی ہے۔ افغانستان کی اس جنگ اور اس سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر فخر کرنے والوں میں جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں پیش پیش رہیں۔ افغانستان کے باقی مذہبی، مترقی، جمہوری، لسانی اور قوم پرست عناصر کو چھوڑ کر جماعتِ اسلامی کے ہم خیال حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گل بدین حکمت یار اور ان کے ساتھی بھی پشیماں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے مقتدر ریاستی اداروں کی مستقبل کے حوالے سے کیا حکمت عملی ہے…؟ اس بارے بات کرنا قبل از وقت ہے مگر گفت و شنید کی اس مختصر مگر نہایت اہم نشست میں واضح طور پر دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو ملک و قوم کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا ہے اور عسکری قیادت نے دھشت گردی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا اب تو جماعتِ اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) اور (س) سمیت تمام مذہبی جماعتوں کو راہِ راست پر واپس آنا چاہیے۔
اس ملاقات میں واضح طور پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں واحد آزاد اور خود مختار ریاست امریکا ہی کی ہے اور جب دیگر خوش حال اور مترقی ممالک امریکا کے ساتھ مزاحمت کے لیے تیار نہیں، تو پاکستان کس طرح ایسا کرسکتا ہے…؟ بہ ہر حال اگر پشاور میں منعقدہ اس زعفرانی محفل کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے، تو یہ مرحوم و مغفور باچا خان کے عدمِ تشدد، سیاسی، اخلاقی اور تعلیمی اصلاحات پر مبنی اس فلسفے کے عین مطابق ہے جس میں جنگ و جدل کی بہ جائے آپس میں اتحاد و اتفاق اور امن سے زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ اس وقت پاکستان کے حالات کسی بھی طور پر ایسے نہیں کہ وہ دیگر ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ مزاحمت جاری رکھ پائے۔ پاکستان کو آبادی میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ غربت، بے روزگاری اور وسائل کی کمی جیسے ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سمیت یہ تمام مسائل ایسے مسائل ہیں جو سیاسی طور طریقوں سے با آسانی حل ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان نے داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بھی اپنی پاکستانی سرپرستوں کی ایماء پر مرتب کیں۔ پاکستان کے مقتدر اداروں کی نہ صرف داخلہ بلکہ تمام تر خارجہ پالیسیاں بھی ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ مقتدر ادارے سیاسی رہ نماؤں کو داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظرِثانی کا مواقع فراہم کریں۔ اگر شہید ذوالفقار علی بھٹو 1971ء کے بڑے سانحے کے بعد بھارت سے 90 ہزار جنگی قیدی، کھیم کرن سیکٹر کی زمینیں واپس لا سکتا ہے، تو آفتاب احمد خان شیرپاؤ، ایمل ولی خان، مولانا فضل الرحمان، علی امین گنڈا پور اور فیصل کریم کنڈی افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ساتھ مل بیٹھ کر بہت سے معاملات کو بھی حل کرسکتے ہیں۔ یہی باچا خان کی وصیت تھی کہ جنگ و جدل اور مزاحمت کی بہ جائے مسائل کو ہمیشہ گفت و شنید کے ذریعے حل کیاجائے۔
____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔