ایک طرف اگر دنیا ترقی کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے اور جدید سائنسی ایجادات سے زندگی کو آسان بنارہی ہے۔ کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ جیسی جدید ترین ٹیکنالوجی لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرچکی ہے۔ جاپان چاند اور مریخ تک بلٹ ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کا منصوبہ بندی کررہی ہے۔ بنگلہ دیش میں طلبہ انٹرنیٹ پر سائنسی مضامین پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کر رہے ہیں، تو وہاں دوسری طرف وطنِ عزیز کے حکومت اور حکومتی اداروں کی نااہلی ہر موقعے پر عیاں ہوتی رہتی ہے، خصوصاً جب عوام کے جان و مال کے تحفظ کا معاملہ ہو۔ لیکن پاکستانی عوام میں ایسے ایسے رستم چھپے ہیں جو گم نام ہیروز ہیں، جنہیں شہرت اور اجر کی چاہ نہیں۔ وہ لوگوں کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر بنا کسی لالچ کے کرتے ہیں۔
ان ہیروز میں سے ایک معتبر حوالہ سوات کے حسین پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں "علیگرامہ” میں خدائی خدمت گار تحریک کے سرگرم رکن کے ہاں جنم لینے والے خدائی خدمت گار آرگنائزیشن ضلع سوات کے ڈپٹی سالار ہلال خان ہیں، جس کا دل سمندر سے بھی گہرا اور جذبہ آسمان سے بھی بلند ہے۔ وہ کیمروں، خبروں اور انعامات سے دور انسانیت کی خدمت میں دن رات مصروف ایک عام شہری ہے جو غیر معمولی جذبے، بہادری اور انسان دوستی کا علم بردار ہے۔
قارئین، ہلال کا تعلق سوات کے تحصیل کبل کے ایک چھوٹے سے گاؤں "علیگرامہ” سے ہے۔ یہ گاؤں وادی سوات کے دیگر علاقوں کی طرح خوب صورتی سے بھر پور ہے مگر وسائل اور سہولیات کی کمی یہاں کے باسیوں کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔ ہلال ایک عام متوسط طبقے کا فرد ہے نہ کسی حکومتی ادارے سے وابستہ، نہ کسی این جی او کا ملازم۔ وہ تعلیم یافتہ ہے مگر اس کا اصل ہنر اس کا دل ہےجو انسانیت کے لیے بے پناہ محبت اور درد سے بھرا ہوا ہے۔
قارئین، دریائے سوات جو اپنی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ اپنی بے رحم موجوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے، جب کسی کو اپنی گہرائیوں میں چھپا کر نگل لیتا ہے، تو اکثر حکومتی اداروں، ریسکیو ٹیمز کی تاخیر اور وسائل کی کمی کے باعث بروقت امداد نہیں پہنچتی اور لوگ دریا برد ہو جاتے ہیں۔ جب تمام امیدیں دم توڑ جاتی ہے، تب ایک آواز سماعت سے ٹھکراتی ہے کہ "ہلال خان کو بلاؤ”۔ کیوں کہ موصوف گذشتہ کئی سالوں سے دریا میں ڈوبنے والوں کو ریسکیو کرتے ہیں یا ان کی لاشیں دریا سے نکال کر لواحقین کو حوالہ کر رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ مشن کئی گھنٹوں یا دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ یہ مشن نہ صرف جسمانی طور پر تھکا دینے والا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی تکلیف دہ ہے۔ مگر ہلال ہمت کا پیکر بنے اپنا فرض پوری ایمان داری سے نبھاتے ہیں۔

باچا خان مرکز پشاور میں خدائی خدمت گار آرگنائزیشن سوات کے ڈپٹی سالار محمد ہلال خان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر خدائی خدمت گار آرگنائزیشن کی جانب سے انہیں اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئی۔
فوٹو: ابدالؔی
وہ اپنی ذاتی کشتی، محدود وسائل اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی کشتی کوئی جدید یا پر آسائش بوٹ نہیں بلکہ لکڑی کی عام سی کشتی ہے۔ نہ ہی ان کے پاس جدید سیکیورٹی گیئر یا غوطہ خور آلات ہیں۔ مگر ان کا حوصلہ، تجربہ اور نیت اُنہیں کام یاب بناتی ہے۔ انہوں نے درجنوں لوگوں کی لاشیں واپس ان کے پیاروں تک پہنچائی ہیں۔ وہ اکثر اپنی جیب سے پٹرول، رسے، آلات اور دیگر ضروری اشیاء خریدتے ہیں تاکہ اپنا مشن جاری رکھ سکیں۔

باچا خان مرکز پشاور میں خدائی خدمت گار آرگنائزیشن سوات کے ڈپٹی سالار محمد ہلال خان کے اعزاز میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس موقع پر محمد ہلال خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سانحہ سوات، قوم کی خدمت اور نوجوان نسل کی ذمہ داریوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
فوٹو: ابدالؔی
جب 2022ء کا سیلاب آیا، تو سوات کی زمین پانی میں ڈوب چکی تھی اور ہر طرف قیامت کا سماں تھا۔ تب ہلال خان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کم زور سے جھونپڑی جیسے تیرنے والے جھولے میں لوگوں کی جانیں بچانے نکلا۔ لوگ بھاگ رہے تھے، لیکن ہلال خان آگے بڑھ رہا تھا۔ موصوف اپنی کم زور سی کشتی پر سوار ہو کر اُن علاقوں میں جاتے رہے جہاں کوئی اور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کئی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔ یہ صرف کشتی نہیں بل کہ ایک نشان ہے اس انسانیت کا جو ہلال خان کے دل میں بستی ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے آلات، اپنی جیب سے خرچ، اپنی جان کا رسک، مگر زبان پر شکایت کا ایک لفظ نہیں۔
قارئین، ہلال خان کی خدمات صرف لاشیں نکالنے یا سیلاب زدگان تک محدود نہیں۔ جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے چاہے وہ گاڑی کے دریا میں گرنے کا واقعہ ہو یا سیر و تفریح کے دوران میں پیش آنے والا کوئی المیہ، لوگ فوراً انہیں یاد کرتے ہیں۔
قارئین، وہ اپنی محدود وسائل میں مقامی نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے ہیں تاکہ مزید لوگ اس نیک کام میں ان کے مددگار بن سکیں۔ ان کے تربیت یافتہ کئی رضاکار ہنگامی حالات میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان خدائی خدمت گار آرگنائزیشن سوات کے ڈپٹی سالار محمد ہلال خان کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازی شیلڈ دے رہے ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی
ہلال خان کو آج تک نہ کوئی سرکاری تمغہ ملا ہے، نہ کسی ٹی وی چینل پر نمایاں کوریج، بل کہ ان کا نام سوشل میڈیا پر بھی بہت کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر لوگوں کے دل میں ان کی جو عزت ہے اور جو دعائیں انہیں ملتی ہیں وہ کسی تمغے یا ایوارڈ سے کہیں بڑھ کر ہے۔
جب وہ کسی ماں کا بیٹا، کسی بیوی کا شوہر یا کسی بچے کا باپ واپس لاتے ہیں، چاہے وہ زندہ ہو یا لاش کی صورت میں، تو انہیں جو دعائیں ملتی ہیں وہی ان کا اجر ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہلال خان ان لوگوں کی دعاؤں میں ہمیشہ رہیں گے جن کے پیاروں کی آخری رسومات وہ ممکن بناتے ہیں ۔
ہلال خان جیسے افراد اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خالصتاً انسانیت کے لیے جیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ایسے ہیروز کو کوئی سراہتا ہی نہیں۔ حکومت، میڈیا اور سول سوسائٹی کو انہیں وسائل، تحفظ، تربیت اور حوصلہ افزائی فراہم کرنا چاہیے تاکہ ان کے مشن کو وسعت مل سکے۔
ہمارے ہاں کھلاڑیوں کو تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر کے اچھے سیلری پیکجز دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ہلال خان جیسے ہیروز کو نہ کوئی نوکری دی جاتی ہے نہ ہی کوئی معاوضہ۔حکومت کو چاہیے کہ ان جیسے تمام بے لوث رضا کاروں کو نوکریاں فراہم کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو، تو کم از کم ان کو ایسے آلات ضرور مہیا کرے جو ان کے کام میں معاون ثابت ہوں۔
اگرچہ ہلال خان خود سادگی پسند اور شہرت سے بے نیاز ہے مگر ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے کرداروں کی کہانیاں سوشل میڈیا کے ذریعے عام کریں۔ اگر ہم فلمی ہیروز، انفلوئنسرز یا مشہور شخصیات کے لیے لاکھوں فالوورز بنا سکتے ہیں، تو کیا ہلال خان جیسے حقیقی ہیروز کو اجاگر کرنا ہماری ذمے داری نہیں…؟
_____________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔