شیر شاہ سوری نے حسن خان کے ہاں سنہ 1486ء کو آنکھ کھولی۔ شیر شاہ جن کا اصل نام فرید خان تھا، ہندوستان میں کم دورانیہ پر محیط بادشاہی کرچکے ہیں مگر یہ بہت مؤثر دورانیہ تھا۔ شیر شاہ سوری نے ہندوستان میں ٹیکسوں، شاہراہوں، ڈاک یا خطوط بھیجنے کے نئے نظام وضع کئے تھے۔ انہوں نے پہلی بار ہندوستان میں کرنسی کی بنیاد رکھی ہے۔
شیر شاہ سوری نے تجارتی مال پر کسٹم ڈیوٹی حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ آپ سے پہلے کسٹم ڈیوٹی کا رواج نہیں تھا۔ ہاں، یہ ہے کہ محصول کا نظام تھا مگر وہ بھی ایسا کہ ایک علاقہ میں ہوتا، تو دوسرے میں نہ ہوتا۔ اسی آمدن کے بل بوتے پر انہوں نے خزانہ قائم کیا۔
صفیہ حلیم نے ہندوستان میں پختونوں پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ وہ شیر شاہ سوری کے کار ہائے نمایاں کے حوالے سے کہتی ہیں: ’’شیر شاہ کی وجہ سے پہلی بار ہندوستان کی زمین قابلِ کاشت ہوئی۔ زمین سے جتنی فصل حاصل ہوتی اس کے مطابق انہوں نے ٹیکس کا نظام وضع کیا۔ وہ بنجر زمین پر ہر گز ٹیکس وصول نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ پوچھتے کہ اس زمین سے کتنی فصل حاصل ہوئی ہے؟ اس کو دیکھتے ہوئے ٹیکس وصول کرتے، اب تک ان کا وضع کردہ نظام جاری ہے۔ اس طرح انہوں نے تجارتی مال پر کسٹم ڈیوٹی حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ شیرشاہ سوری سے پہلے کسٹم ڈیوٹی کا رواج نہیں تھا۔ ہاں، یہ ہے کہ محصول کا نظام تھا مگر وہ بھی ایسا کہ ایک علاقہ میں ہوتا، تو دوسرے میں نہ ہوتا۔ اسی آمدن کے بل بوتے پر انہوں (شیر شاہ سوری) نے خزانہ قائم کیا۔ جب سرکاری خزانہ قائم ہوجائے، تو حکومت مستحکم ہوجاتی ہے۔ اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی یہ پہلی حکومت تھی، جس نے عام عوام کی بھلائی اور ان کی زندگی میں آسانی لانے کے لئے کام کیا۔ بالفاظ دیگر یہ وہ حکومت تھی جو عام لوگوں کی بھلائی کا سوچتی تھی۔ جب خزانہ ہوتا ہے، تو لوگ خوشحال ہوتے ہیں۔‘‘
پچیس سو کلومیٹر لمبی مرکزی شاہراہ شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی ہے، جس نے ہندوستان کے بڑے شہروں کلکتہ، بنارس، علی آباد، امرتسر اور لاہور کو جوڑے رکھا ہے۔ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی سڑکیں موجود تھیں، لیکن کچی تھیں۔ آپ نے سڑکیں پکی اینٹوں کے ذریعے پختہ کیں۔
صفیہ حلیم آگے لکھتی ہیں: ’’شیرشاہ سوری کا سب سے اہم کام پورے ہندوستان میں سڑکوں کی تعمیر ہے۔ انہوں نے سیسرام سے آگرہ تک سڑک بچھائی۔ بہار اور اترپردیش کا رابطہ بحال کیا۔ آگرہ سے جونپور اور چیتور تک سڑک کے لئے راستہ ہموار کیا، ان کا شمار دور افتادہ علاقوں میں ہوتا ہے۔ آگرہ سے برہان پور، دکن اور گجرات تک سڑک بچھائی۔ یوں ملتان تا لاہور نئی سڑکیں بچھائی گئیں۔ صرف سڑکیں ہی نہیں، دونوں اطراف شجر کاری اور مسافروں کے لئے سرائے (مسلمانوں کے لئے الگ اور ہندوؤں کے لئے الگ) کا انتظام بھی کیا۔ اس کے علاوہ پچیس سو کلومیٹر لمبی مرکزی شاہراہ بھی ان کی بنائی ہوئی ہے، جس نے ہندوستان کے بڑے شہروں (کلکتہ، بنارس، علی آباد، امرتسر اور لاہور) کو جوڑے رکھا ہے۔ اس سے پہلے چھوٹی چھوٹی سڑکیں موجود تھیں، لیکن کچی تھیں۔ سڑکیں پکی اینٹوں کے ذریعے پختہ کی گئیں۔ علاوہ ازیں اگر اُن (شیر شاہ سوری) کے فوجی نظام کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اس میں قابل جرنیل اور امیر تھے، جو اپنی استعداد کے مطابق لازمی امور نمٹاتے تھے۔ اس طرح شیر شاہ سوری نے اقربا پروری اور سفارش کی حوصلہ شکنی کی۔ اس دوران میں انہوں نے فوجیوں کو باقاعدہ طور پر تنخواہ دینے کا عمل بھی شروع کیا۔ اُس دور میں فوجیوں کو تنخواہ نہیں دی جاتی تھی، فوجی صرف مالِ غنیمت پر اکتفا کیا کرتے تھے۔‘‘
ہندوؤں کی ان تمام بری عادتوں جن میں زندہ عورتوں کو اپنے مردہ شوہروں کے ساتھ جلایا جاتا تھا، کا خاتمہ شیر شاہ سوری کی وجہ سے ممکن ہوا اور یوں ہندوستان کی عورتوں نے اس ظلم سے گلو خلاصی حاصل کی۔
لکھاری اور محقق حبیب اللہ رفیع کہتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے جوانی میں بہت کام کئے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا انصاف کا برتاؤ ہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ ’’شیر شاہ سوری ایک پختون خود مختار حاکم تھے۔ سوری اور غوری خاندان سے تھے۔ ہندوستان میں وہ کمال تک پہنچے اور ہندوستان کے عوام کی بے مثال خدمت کی۔ ہندوؤں کی ان تمام بری عادتوں جن میں زندہ عورتوں کو اپنے مردہ شوہروں کے ساتھ جلایا جاتا تھا، کا خاتمہ ان (شیر شاہ سوری) کی وجہ سے ممکن ہوا اور یوں ہندوستان کی عورتوں نے اس ظلم سے گلو خلاصی حاصل کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہندوستان میں عدل کا نظام قائم کیا۔ ہر خاص وعام کی رسائی ان تک ہوتی۔ وہ ہر کسی کی عرض کو سنتے اور پھر اس کی روشنی میں ضروری انصاف کرتے۔ انہوں نے ہند میں بڑا نام کمایا تھا۔ ہند کی بڑی تواریخ شیر شاہ سوری پر فخر کرتی ہیں اور ان کی تعریف کرتی ہیں۔‘‘
ہند کی بڑی تواریخ شیر شاہ سوری پر فخر کرتی ہیں اور ان کی تعریف کرتی ہیں۔
شیر شاہ سوری کے بنائے گئے مختلف نظاموں سے اب بھی ہندوستان کے لوگ فائدہ حاصل اٹھاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے کابل، پشاور یا غور کو کیوں اپنی حکومت کا مرکز نہیں گردانا، تاکہ ترقی کے لئے کئے گئے کام پختون علاقوں میں باقی رہتے۔ اس حوالے سے صفیہ حلیم کے بقول شیر شاہ سوری نے ذکر شدہ تمام کام بہت کم عرصے میں کئے ہیں۔ ’’اس کی حکومت کا عرصہ پانچ سال پر محیط تھا۔ پانچ سالوں میں جب ہم ان کی کامیابیوں کو دیکھتے ہیں، تو یہ بہت زیادہ ہیں۔ پانچ سال کم عرصہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں جب کوئی صدر زمام اقتدار سنبھالتا ہے، تو ذکر شدہ عرصہ میں وہ کتنا کام کرتا ہے؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت شیر شاہ سوری کے خیال میں کابل اور پشاور کے علاقے اتنی اہمیت کے حامل نہ ہوتے ہوں۔ انہوں نے ہندوستان میں پختونوں کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے جو کار ہائے نمایاں انجام دئیے، تو ہوسکتا ہے کہ ان کا منصوبہ ہو کہ آنے والے وقتوں میں ان علاقوں کو بھی زیر اثر رکھیں اور ان پر پختونوں کے مراکز تعمیر کریں، لیکن ان کی موت جنگِ میدان میں واقع ہوئی اور انہیں یہ موقعہ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
شیر شاہ سوری کی موت کے بعد اس کے بیٹے اپنے والد سے ملنے والی حکمرانی کو قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ صفیہ حلیم اس حوالہ سے کہتی ہیں: ’’شیر شاہ سوری کے دس بیٹے تھے۔ ان میں عادل خان بڑا بااخلاق تھا، لیکن اس میں قوتِ فیصلہ کی کمی تھی۔ دوسرا جلال خان تھا جو کہ بڑا تیز و طرار تھا۔ وہ اچھا فوجی اور منتظم تھا لیکن اس کے ساتھ وہ خود سر اور کینہ پرور بھی تھا۔ جو بھی اس کی مخالفت کرتا، وہ اس پر برس پڑتا۔ لوگ اس سے دبتے تھے۔ دونوں بھائیوں میں اپنے والد جیسی صلاحیتیں (یعنی جلد فیصلہ کرنا اور ساتھ جنگی مہارت رکھنا) مفقود تھیں۔ یہ ان دونوں کی کمزوری تھی۔ آخرِکار جلال خان، والد کے تخت پر بیٹھ گیا۔ جب دس بیٹوں میں دو ایسے ہوں اور انتظام سے بھی واقف نہ ہوں، تو وہ سلطنت بچ نہیں پاتی۔ اُس وقت بھی مخالفت موجود تھی۔‘‘
پختو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے شیر شاہ سوری اور بہلول لودھی کو اپنے اشعار میں کچھ یوں یاد کیا ہے:
د شیر شاہ او بہلول خبری اورم
چی پہ ہند کی پختانہ وو پاچاہان
شپگ او اووہ پیڑئی ئی داسی پاچاہی وہ
چی پہ دوی پوری درست خلک وو حیران
کہ توفیق د اتفاق پختانہ مومی
زوڑ خوشحال بہ دوبارہ شی پہ دا زوان
ترقی اور خوشحالی کے لئے مشہور پختون اتل شیر شاہ سوری ایک خیمے میں جنگ کے دوران میں قتل کر دئیے گئے۔ اور صفیہ حلیم ان کی موت کے حوالے سے کہتی ہیں: ’’شیر شاہ سوری ہندوستان کے علاقہ کلنجر میں وفات پائے ہیں۔ کلنجر کے قلعہ میں گونڈیلا (قبیلہ) لوگ بستے تھے۔ گونڈیلا ہندوستان کے پرانے لوگ ہیں۔ انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا اور بڑے دلیر لوگ ہیں۔ کلنجر قلعہ بہت بڑا اور وسیع تھا۔ سات مہینے تک اسے محاصرہ میں رکھا گیا۔ اہلِ قلعہ سے کہا گیا کہ آپ لوگ صلح کرلیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن انہیں اس بات کا اعتبار نہیں تھا۔ قلعہ کی دیواریں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ کسی نہ کسی طرح قلعہ کے اندر آگ کے گولے پھینکنے کی خاطر بمباری جاری تھی۔ شیر شاہ سوری کی فوج نے دیواروں کی بلندی کو دیکھتے ہوئے لکڑی کے پایے بنا دئیے اور ان کو قلعہ کے باہر ایک فاصلہ پر کھڑا کر دیا۔ فوجی ان پایوں پر چڑھ گئے اور بارودی گولے جنہیں دستی بم بھی کہا جاسکتا ہے، قلعہ کے اندر پھینک دئیے۔ مذکورہ بموں کو قلعہ کی دیوار کے ساتھ ذخیرہ کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری بموں کے اس ذخیرہ کے ساتھ ایک پایہ پر کھڑے تھے۔ یہ پایہ بھی لکڑی ہی کا بنا تھا۔ اسی اثنا میں پایے کو آگ لگ گئی، بارودی گولے جنہیں آس پاس ذخیرہ کیا گیا تھا، ایک ایک کرکے پھٹنے لگے۔ نتیجتاً شیرشاہ سوری کا وجود بری طرح جھلس گیا اور وہ نیچے گر پڑے۔ اس کے بعد بھی وہ ہوش میں تھے۔ اس وقت بھی انہوں نے اپنے جرنیل کو کہا کہ میدان گرم رکھا جائے۔ تین دن تک شیر شاہ سوری زندہ رہے۔ یہاں تک کہ کلنجر کا قلعہ فتح کیا گیا اور انہیں خوشخبری سنائی گئی۔ اس کے ساتھ شیر شاہ سوری کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جوانی میں شیر شاہ سوری سوتیلی ماں کی وجہ سے اپنے والد سے ناراض ہوکر گھر کو خیر باد کہہ گئے۔ انہوں نے غریب الوطنی میں بھی سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ نہ صرف یہ کہ اس وقت کے رائج علوم کا مطالعہ کیا بلکہ علم و فلسفہ کو بھی سیکھا۔اس حوالہ سے صفیہ حلیم کہتی ہیں: ’’جب وہ گھر سے ناراض ہوئے، تو بہار سے جونپور سدھار گئے۔ جونپور اس وقت دینی و دنیوی علوم کا مرکز تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہ کر شیر شاہ سوری نے دینی علم حاصل کیا اور فقہ کے حوالہ سے جان گئے۔ شیر شاہ سوری کے اس عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا کتب اور علم کے ساتھ کس حد تک لگاؤ تھا۔ اس دوران میں انہوں نے خوب علم حاصل کیا۔ صرف و نحو کا مطالعہ کیا۔ ان کے ایک استاد قاضی شہاب الدین تھے، جن کے تبصرے آپ (شیر شاہ سوری) نے پڑھ لئے۔ یہ آپ کے تصوف سیکھنے کا دور تھا، جس نے آپ کی شخصیت پر اثرات ڈالے۔ والئی جونپور کے ساتھ آپ کے تعلقات کافی خوشگوار تھے۔ یوں آپ کے علم کا چرچہ آپ کے والد حسن خان تک پہنچ گیا۔ لوگ ان کے والد بزرگوار کو طعنے دیتے کہ اتنے قابل اور ہونہار نوجوان کو کیوں اپنی ذات سے دور رکھا ہے؟ آپ کی قابلیت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ لوگ کہتے کہ غور کے خاندان میں ایسا جوہر قابل پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے لوگوں نے حسن خان کو مشورہ دیا کہ انہیں واپس بلا لیا جائے اور قبیلے کا انتظام فرید خان یعنی شیر شاہ خان کے حوالے کیا جائے۔ یہ اس لئے کہ حسن خان کے تمام بیٹوں میں شیر شاہ خان سب سے زیادہ ہوشیار اور دلاور تھے۔ آپ کو سیسرام بلوایا گیا جہاں آپ نے زمینوں کا انتظام و انصرام سنبھالا۔‘‘
تھوڑا عرصہ بعد ایک بار پھر شیر شاہ سوری کے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے اور وہ ایک بار پھر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ ابھی جوان تھے کہ ریاستِ بہار کے حکمران ٹھہرے۔ لکھاری صفیہ حلیم اس حوالہ سے کہتی ہیں: ’’دو سال بعد شیر شاہ سوری کے والد حسن خان نے انہیں فوجی ملازمت سے برخاست کرکے سیسرام بھگا دیا۔ تاریخی اس حوالے سے خاموش ہے کہ انہیں کیوں فوجی ملازمت سے برخاست کرکے سیسرام بھگایا گیا؟ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ حسن خان کی اور بیویاں بھی تھیں، جو شیر شاہ سوری کے خلاف حسن خان کے کان بھرا کرتی تھیں۔ پھر بھی اس بات کا کسی کو کچھ پتا نہیں کہ وہ کیوں علاقہ چھوڑ گئے، والد بزرگوار نے انہیں کیوں بھگایا اور وہ کانپور کیوں گئے؟ کانپور میں شیر شاہ سوری کچھ عرصہ رہے۔ یہ وہ سال تھے جب بابر بادشاہ کابل سے نکل آئے تھے اور آہستہ آہستہ ہندوستان کی طرف زور لگا رہے تھے کہ اس پر اپنا قبضہ جما سکیں۔ لودھیوں کی حکومت ان دنوں کمزور پڑ رہی تھی۔ ابراہیم لودھی اس وقت ہندوستان کے بادشاہ تھے اور ریاستیں الگ ہو رہی تھیں۔ اس وقت بہار کے علاقہ میں شیر شاہ سوری نے اپنے قدم جما لئے۔‘‘
(نوٹ: یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب “اتلان” کے مضمون “شیر شاہ سوری” کا ترجمہ ہے۔ جس میں جہان زیب کالج کے شعبہ پشتو کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ اور عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ نے مترجم کی معاونت فرمائی ہے۔
____________________________
قارئین، یہ تحریر 12 اگست 2017ء کو لفظونہ ڈاٹ کام پر شائع کی گئی تھی۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔