سپریم کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر  اپنی مختصر رائے جاری کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے بھٹو صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواست کی سماعت کے دوران میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وکلا، احمد رضا قصوری اور عدالتی معاونین کو سننے کے بعد 04 مارچ کو رائے محفوظ کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی مختصر رائے سناتے ہوئے کہا کہ عدالت کی رائے اس معاملے پر متفق ہے، ہم ججز پابند ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔
سپریم کورٹ کے ججز کی متفقہ رائے میں کہا گیا ہے خود احتسابی کےلیے انتہائی عاجزی سے ماضی کے غلط اقدامات اور غلطیوں کا سامنا کرنا چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیے بغیر درست سمت میں نہیں جاسکتے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے رائے سنائے جانے کے وقت بلاول بھٹو زرداری عدالت میں موجود تھے اور رائے سنتے وقت آبدیدہ ہوگئے۔
فوٹو: ابدالؔی

سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 186 کے تحت کسی بھی عوامی مفاد سے متعلق قانونی سوال پر صدارتی ریفرنس پربرائے دینا ہوتی ہے، ہمارے سامنے سوال تھا کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو شفاف ٹرائل ملا، سوال تھا کہ بھٹو ٹرائل کے دوران میں ڈیو پراسس اور فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے۔
عدالتی رائے میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس سے فوجی آمر ضیاء الحق کی حکومت میں بھٹو کی سزائے موت کے ٹرائل کو جانچنے کا موقع ملا، صدارتی ریفرنس بھٹوکی سیاسی جماعت کے دورِ حکومت میں داخل کیا گیا، اس کے بعد نگراں حکومتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آئیں۔ لیکن کسی جماعت نے ریفرنس واپس نہیں لیا، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ عوام کی خواہش تھی کہ عدالت اس پر اپنی رائے کا اظہار کرے۔
متفقہ رائے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے بڑے قانونی ماہرین کی معاونت سے عدالت اپنی مختصر رائے دیتی ہے، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کارروائی آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق آرٹیکل 4، 9 اور 10 (اے) کے مطابق نہیں تھی۔ آئین و قانون میں ایسا کوئی مکینزم موجود نہیں کہ اس اختیار سماعت میں بھٹو فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے نظرِثانی مسترد ہونے کے بعد فائنلٹی اختیار کرچکا ہے، یہ سوال کہ کیا ٹرائل کے دوران میں جو مواد و شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پر بھٹو کو سزائے موت دی جا سکتی تھی۔ عدالت کی رائے ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا مشاورتی اختیار سماعت ہے، اس اختیار سماعت کے تحت عدالت شہادتوں کا دوبارہ جائزہ لے کر فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔
عدالتی رائے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت فیئر ٹرائل نہ ہونے کے حوالے سے بڑی آئینی و قانونی خامیوں کی تفصیلی وجوہات میں نشان دہی کرے گی، اسلامی تناظر میں بھٹو ٹرائل کا جائزہ لینے کے سوال پر عدالت کو معاونت فراہم نہیں کی گئی، معاونت فراہم نہ ہونے پر نامناسب ہوگا کہ عدالت اس قانونی سوال پر اپنی رائے دے۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف کا سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کے بعد جاری پیغام
فوٹو: ابدالؔی

سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر رائے سنائے جانے کے وقت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی عدالت میں موجود تھے اور رائے سنتے وقت بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہو گئے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا آج سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، عدالت نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کےلیے فیصلہ سنارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے انتظار میں ہیں، عدالت کے تفصیلی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کریں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس پر صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے 09 رکنی لارجر بینچ نے سنا
فوٹو: ابدالؔی

یاد رہے کہ 2011ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے دسمبر 2012ء تک کیس کی 6 سماعتیں بھی کی تھیں۔ لیکن ریفرنس سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔
شیئرکریں: