زمونگ خادم، زمونگ سالار، زمونگ رہبر ولی خان
تل دی جوندے وی د دی قام د زڑگی سر ولی خان
ھغہ د ننگ میدان چی تل پہ باچا خان ولاڑ وو
نن پہ ھغی ڈگر ولاڑ دے لکہ غر ولی خان
مونگ ورتہ نمر د پختون خوا د اسمان زکہ وایو
ہرے تیارے لہ تل سیرلے دے زیگر ولی خان
زمونگ نہ سہ پوختی زمونگ دَ سیاست عقیدہ
زمونگ مقام زمونگ لار زمونگ نظر ولی خان
چی امیدونہ دَ خوارانو تری چاپیرہ چورلی
ھغہ سپرلے ھغہ رنڑا ھغہ سحر ولی خان
زمونگ خادم، زمونگ سالار، زمونگ رہبر ولی خان
تل دی جوندے وی د دی قام د زڑگی سر ولی خان
قارئین، 1965ء کی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا کہنا تھا کہ اگر ولی خان میرے جلسے کی صدارت نہیں کریں گے، تو مَیں پشاور جلسے میں شرکت نہیں کروں گی۔ یہ پیغام جب سردار شوکت حیات نے رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان تک پہنچایا، تو اُنھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا۔ کیوں کہ ولی خان اس جلسے کی صدارت دراصل پنج جماعتی اتحاد کے کسی راہ نما کو سونپنا چاہتے تھے۔ تاہم محترمہ فاطمہ جناح کا اصرار تھا کہ صدارت ولی خان ہی کریں گے۔
اِس کے بعد 1965ء کے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں فاطمہ جناح کی حمایت میں ولی خان کی زیرِ صدارت پشاور میں جو تاریخ ساز جلسہ ہوا، اُس نے فوجی آمر جنرل ایوب کے اوسان خطا کردیے۔ جلسے کے بعد ولی خان جب یونی ورسٹی ٹاؤن پشاور میں سردار عبدالرشید کے ہاں مقیم محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے گئے، تو محترمہ کی تمام گفت گو کا محور نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے کارکنوں کا مثالی نظم و ضبط اور پُرجوش اندازِ اپنائیت تھا۔
خواجہ ناظم الدین نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ مَیں نے مسلم لیگ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) کے صدر کو ہدایت کی ہے کہ وہاں ولی خان موجود ہیں، آپ کو مشورے کے لیے میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔ ولی خان نے اس اعتماد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اِن صاحب (خان عبدالقیوم خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے دورِ حکومت میں دیگر مظالم کے علاوہ صرف ایک واقعہ میں بابڑہ کے مقام پر ہمارے چھے سو سے زاید کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مَیں اُن شہدا کی لاشوں پر چلتا ہوا آپ کی طرف آ یا ہوں، لیکن ایک طرف ڈکٹیٹر ہے اور دوسری طرف ایک جمہوری محاذ، اس لیے ہم نے ملک و قوم کی خاطر ہی فیصلہ کیا ہے کہ قربانیوں کے لیے صفِ اول میں کھڑا ہوکر اپنا کردار ادا کریں گے۔
قارئین، تاریخ کا یہ اَن مٹ باب اس صاحبِ کردار، رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کی یاد دلاتا ہے، جن کی آج یعنی 26 جنوری بروزِ جمعہ کو 18ویں برسی منائی جائے گی۔ اپنے والدِ بزرگوار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی طرح ولی خان کی زندگی بھی جمہوری، آئینی اور عوامی حقوق کی مسلسل جد و جہد سے عبارت ہے۔
ھغہ دَ ننگ میدان چی تل پہ باچا خان ولاڑ وو
نن پہ ھغی ڈگر ولاڑ دے لکہ غر ولی خان
’’ون یونٹ سکیم‘‘ کے خلاف تحریک کے دوران میں باچا خان اور ولی خان سمیت پانچ ہزار سے زاید کارکنان جیل میں اسیری کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے ڈھیر سارے لوگوں کو عمر قید اور جائیدادوں کی ضبطی کی سزا بھی ہوئی۔ اُن اسیروں کو اپنے صوبے (اُس وقت کا صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختون خوا) سے باہر یعنی مچھ، ملتان اور ساہیوال کی جیلوں میں رکھا گیا تھا۔ مذکورہ جیل خانوں سے 17 سرخ پوشوں (خدائی خدمت گار) کے جنازے بھی سرحد (اب خیبر پختونخوا) لائے گئے، لیکن وہ باچا خان اور ولی خان کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہ تھے ۔
ستا لوبہ، ستا شرطونہ، ستا اُصول، ستا فیصلے
دَ دے ہر سہ د پاسہ ہم ولاڑ یو پہ میدان
یوہ پیڑئی سہ، سو نسلونہ نور بہ ہم جنگیگو
وژلے نہ شی مونگ کے ژوند کوونکے باچا خان
ولی خان نے 1942ء میں جب خدائی خدمت گار تحریک سے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا، تو اگلے سال 1943ء ہی میں گرفتار ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار 15 جون 1948ء کو گرفتار ہوئے۔ پانچ سال، پانچ مہینے اور پانچ دن کسی عدالت میں پیش کیے بغیر پسِ زِنداں رکھے گئے۔ اس دوران میں اُن کی تمام جائیداد کو بحقِ سرکار ضبط رکھا گیا۔
جیل میں تھے کہ 14 فروری 1949ء میں اُن کے ہاں دو جڑواں بیٹوں کی ولادت ہوئی۔ ایک بیٹا اپنی ماں گوہر تاج بی بی (جو پروفیسر جہان زیب نیاز کی بہن تھیں اور عام طور پر تاجو بی بی کے نام سے مشہور تھیں) کے ساتھ ہی فوت ہوگیا جب کہ دوسرے کو دنیا آج اسفند یار ولی خان کے نام سے جانتی ہے۔ اہلیہ کے انتقال پر آپ کو ایک مہینے کے لیے پے رول پر رہا کیا گیا۔ بعد ازاں 14 نومبر 1953ء کو فیڈرل کورٹ (موجودہ سپریم کورٹ) نے اُنھیں رہا کیا۔
قارئین، ولی خان اپنی کتاب “باچا خان اور خدائی خدمت گاری” میں تاجو بی بی کی دردناک جدائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1949ء میں مارچ کا پہلا ہفتہ تھا۔ مجھے جیل میں خبر ملی کہ تاجو مردان کے ایک ہسپتال میں جان کی بازی ہار گئیں۔ زچگی کے دوران میں اُن کے ہاں دو بچوں کی پیدایش ہوئی تھی۔ ایک ماں کے ساتھ ہی وفات پاگیا اور دوسرا بچہ اسفندیار ولی خان تھا۔
آگے لکھتے ہیں کہ مجھے اُس دن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پورا جیل یعنی میرے دوست و احباب جو میرے ساتھ پابندِ سلاسل تھے، سب کو اس بارے علم تھا۔ کیوں کہ اُن کی وفات 14 فروری کو ہوئی تھی اور اَب اُن کی وفات کو دو ہفتے ہوچکے تھے۔ سب کو خبر تھی مگر غم و الم کی یہ خبر مجھے کوئی نہیں بتاسکا۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مجھ پر جتنی بھی مصیبتیں آن پڑی تھیں، اُن میں سب سے کرب ناک یہ خبر ہی تھی۔ جیل بھی انگریزوں کے زمانے کے جیل سے زیادہ وحشی تھا۔ میری تمام جائیداد بحق سرکار ضبط ہوچکی تھی۔ میری بیوی اور بچے بے سہارا ہوچکے تھے، مگر اُس وقت یہ تسلی رہتی تھی کہ تاجو موجود ہیں، وہ میرے گھر اور بچوں کو سنبھال لیں گی اور حقیقت بھی یہی تھی کہ وہ ایک بہادر خاتون تھیں۔ جب بھی اُن کا خط بڑی مشکلوں اور خفیہ طریقے سے مجھے ملتا، اُس میں ہمت اور حوصلے کی ایسی باتیں لکھی ہوتی تھیں کہ میرا حوصلہ اور بھی بڑھ جاتا اور مجھے اطمینان محسوس ہوتا کہ تاجو گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔ قیوم خان نے جب میری جائیداد ضبط کرنے کے احکامات جاری کیے، تو پولیس والوں نے گھر کا سامان بھی ضبط کرلیا۔ اس کارروائی کے دوران میں پولیس کی نظر جب جھولے پر پڑی، جس میں میری ایک سالہ بچی نسرین پڑی تھی، تو اس نے بچی کو اُٹھا کر زمین پر پھینکا اور وہ جھولا بھی بحقِ سرکار ضبط کیا۔
آگے لکھتے ہیں کہ اب گھر کی یہ حالت ہوگی کہ ایک چیز بھی نہیں رہی، بس دیواریں ہی رہ گئیں۔ تاجو کے بھائی (پروفیسر جہان زیب نیاز) اور ماں (میری ساس) اُن سے ملنے آئے اور اُن کو ساتھ چلنے کا کہا کہ تم پہلے بھی اکیلے رہتی تھیں، مگر اب تو گھر کا سامان بھی قیوم خان کی پولیس لے کر گئی ہے۔ تاجو نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مَیں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ کیوں کہ مَیں نہیں چاہتی کہ دشمن خوش ہو کہ ولی خان کو جیل میں ڈال دیا ہے اور اب اُن کا گھر بھی نہیں رہا۔ اگر ولی خان جیل میں زمیں پر سوسکتا ہے، تو مَیں اور میرے بچے بھی اسی زمیں پر سوئیں گے۔ مَیں اُن کے گھر اور حجرے کو ویراں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔
لکھتے ہیں کہ مَیں سوچ رہا تھا کہ میرا کیا، مَیں تو کسی طرح بھی جی لوں گا، مگر تاجو کی وجہ سے کم از کم بچوں کی فکر سے آزاد تو تھا…… اب بچوں کا کیا ہوگا!
لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے ایک ماہ کے لیے پے رول پر رہائی ملی۔ مَیں جہان زیب نیاز کے ساتھ “شاہی باغ” آگیا۔ میرا گھر مکمل اُجڑ چکا تھا۔ میرے بچے (اسفندیار اور نسرین) اپنی نانی کے پاس تھے۔ مَیں نے اُن سے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں تاجو کی تابوت کو رجڑ سے شاہی باغ منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کی اجازت پر جب ہم تابوت کو منتقل کرنے لگے، تو تابوت کے اوپر تاجو کا وہ بنارسی جوڑا پڑا ہوا تھا جس میں تاجو میرا گھر بسانے آئی تھیں، اِس آرزو کے ساتھ کہ وہ میرے گھر کو روشن کرے گی۔ آج اُسی گھر سے ہم اُن کی لاش کو اُسی جوڑے میں منتقل کررہے تھے۔ ہم نے تو زندگی بھر ساتھ رہنے کے عہد کیے تھے، لیکن تاجو مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں۔
لکھتے ہیں کہ تاجو نے مجھے زندگی کے رونقوں سے آشنا کیا تھا اور اُن کی موت نے مجھ پر اِس دنیا کی حقیقت کھول دی۔ گھر جا کے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ بابڑہ میں ہونے والے پولیس کے بدترین قتل عام کے موقع پر بھی تاجو اس جلوس میں شریک تھیں اور اُن کو ایک گولی بھی لگی تھی۔ اُس دن تاجو نے نرس کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے دوپٹے سے زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کی۔ اس واقعے کے بعد وہ رنجیدہ رہنے لگی تھیں، جیسے یہ زندگی اُن کے لیے بے معنی ہوکر رہ گئی ہو۔ میرے بچوں کا اب کوئی آسرا نہیں رہا۔ اب نانا کا گھر ہی اُن کا مسکن تھا۔ کیوں کہ میرے شاہی باغ کا ہنستا مسکراتا گھر اب اجڑ چکا تھا۔
اوگورئی پہ لاس کی د تاریخ د جبر تبر تہ
مڑ شو د بے ننگہ پختنو سرہ پہ ننگ ملنگ
رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے اسفندیار ولی خان اور بیٹی نسرین ولی خان کی پرورش اور تربیت کے لیے نومبر 1954ء میں بیگم نسیم ولی خان سے اُس وقت دوسری شادی کی، جب باچا خان بابا کو صوبہ بدر کیا گیا تھا۔
قارئین، جون 1968ء میں ولی خان نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ 13 نومبر کو گرفتار کرلیے گئے اور مارچ 1969ء میں رہا ہوئے۔
08 فروری 1975ء کو صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ پشاور یونی ورسٹی میں ایک بم دھماکے میں انتقال کرگئے۔ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے موصوف کے قتل کا الزام ولی خان پر لگا دیا۔ اس لیے اُسی رات ہی ولی خان لاہور سے پشاور آتے ہوئے گجرات کے قریب گرفتار کرلیے گئے اور اُن پر مشہورِ زمانہ “حیدر آباد ٹربیونل کیس” بنایا گیا۔
حیدر آباد سازش کیس میں ولی خان کے خلاف 5 سو سے زیادہ گواہان تھے، لیکن حکومت نے 19 مہینوں میں اُن کے خلاف محض 22 گواہ عدالت میں پیش کیے۔ اس سست روی پر ولی خان نے جج کو خط لکھتے ہوئے کہا:
جناب عالی! اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آبِ حیات کا انتظام کیجیے۔ آپ خود بھی پی لیں، مجھے اور گواہوں کو بھی پلا دیں، تاکہ مقدمے کے فیصلے تک سب زندہ رہیں۔
1975ء میں حکومت نے اُن کی پارٹی (نیپ) پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی اور 1977ء میں مارشل لا لگنے کے بعد عدالت کے حکم پر رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان کو رہائی ملی۔
قارئین، ذوالفقار علی بھٹو جب قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان تھے، تو ولی خان قائدِ حزبِ اختلاف کے نشست پر براجمان تھے۔ اُنھوں نے جب بھی کسی حکومتی جماعت یا حکم ران کی اُصولوں کی بنیاد پر مخالفت کی، تو آپ پر فوری غداری کا ٹھپا لگایا گیا۔ حالاں کہ آپ کی حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ جب مشرقی پاکستان (بنگال) میں شورش برپا ہوئی، تو مغربی پاکستان سے وہ خود ہی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کے لیے ڈھاکہ گئے۔ شیخ مجیب نے اس موقع پر رہبرِ تحریک کو کہا کہ “پاکستان تو ہم نے بنایا ہے جب کہ آپ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے، اب آپ پاکستان بچانے کی بات کر رہے ہیں!” رہبرِ تحریک ولی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ “تقسیمِ ہند کے سلسلے میں ہمارا علاحدہ موقف تھا، لیکن اب یہ (پاکستان) ہمارا ملک ہے۔ بد قسمتی سے اِس وقت ملک پر یہ لوگ مسلط ہیں۔ اُس وقت ایک طرف ہم انگریز سامراج (پیرنگی) کو نکالنے کے خلاف جد و جہد میں مصروف تھے ، تو دوسری طرف یہی لوگ اُن کی کتے نہلا کر جاگیریں بنا رہے تھے۔”
قارئین، رہبرِ تحریک ولی خان خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ایک زیرک سیاست دان تھے۔ جنرل ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب کی تقریر کے بعد جب خطاب کے لیے آئے، تو کہا کہ دراصل 54 فی صد اکثریتی آبادی کا نمایندہ (شیخ مجیب) 46 فی صد اقلیتی آبادی کے نمایندوں سے اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ جس پر شیخ مجیب نے برملا اعتراف کیا کہ جو بات میں 22 صفحات پر مشتمل تقریر میں واضح نہ کرسکا، اُسے آپ نے ایک جملے میں بیان کر دیا۔
بے دلیلہ خو میئن درباندی نہ یم
د خبرو دی خوشبو رازی، لونگہ غنم رنگہ
قارئین، پاکستانی عوام آج بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں…… لیکن 40 سال قبل جب ولی خان نے پاکستان کو اس پرائی جنگ میں کودنے سے منع کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ “افغانستان میں کفر اور اسلام کی نہیں بلکہ دو ہاتھیوں (روس اور امریکہ) کے مفادات کی جنگ ہے”، تو حسبِ روایت ملکی و امریکی ایجنسیوں کے تنخواہ داروں نے اُن پر کفر کے فتوے اور غداری کے الزامات لگائے اور اُنھیں روس کے ایجنٹ کا سرٹیفکیٹ تھمایا مگر وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ کیوں کہ اُن کو حالات کا مکمل ادراک تھا۔
لکہ ونہ مستقیم پہ خپل مقام یم
کہ خزان راباندی راشی کہ بہار
آج وہی لوگ خود افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کس طرح ڈالروں اور اسلحے کے ذریعے امریکہ کی خاطر افغانستان میں نام نہاد جہاد (فساد) برپا کیا گیا تھا۔
ولی خان پر جس تیزی سے غداری کے الزامات لگے، اُسی مستعدی سے غدار کہنے والوں نے اپنی ضرورت کے لیے حب الوطنی کی اسناد سے بھی اُنھیں نوازا۔ اُن دنوں معروف کارٹونسٹ یوسف لودھی کے ایک کارٹون کو بہت شہرت ملی، جس کا عنوان تھا “ولی خان تا حکمِ ثانی محبِ وطن قرار دیے گئے۔”
ورک اسلام آباد شہ غٹ غٹ خلک پہ پیسو اخلی
سرو سپینو بدل نہ کڑو پہ رنگ د غنم رنگ ملنگ
برسبیلِ تذکرہ، ولی خان بابا کہتے ہیں: “ایک مرتبہ فاروق لغاری کے دورِ حکومت میں پنجاب اسمبلی میں میرے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی قرار داد منظور ہوئی۔ مَیں نے کہا بالکل چلائیں کیوں کہ اسی طرح کے چار مقدمے پہلے سے ہی لاہور میں بنائے گئے تھے۔ مَیں نے اپنے وکیل کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ کو پیغام پہنچایا کہ یہ مقدمے آپ ضرور سنیں۔ جب کہ اپنے وکیل کے ذریعے سے مخالف وکیل کو بھی یہ کہا کہ کہیں کہ جتنے پیسے آپ کو فریقِ اول دے رہا ہے، اتنی رقم میں دوں گا لیکن یہ کیس نہ چھوڑیں۔ ہم مقدموں سے ڈرنے والے نہیں۔
د وطن پہ مینہ مست یو لیونی یو
کہ پہ دار شو کہ سنگ سار شو پرواہ نشتہ
قارئین، معروف کالم نگار اجمل خٹک کشر کے مطابق: “میرے زمانۂ طالب علمی میں خان صاحب کراچی پریس کلب آئے۔ خطاب کے بعد ایک صحافی نے جذباتی انداز میں سوال کیا کہ سنا ہے آپ پاکستان توڑنا چاہتے ہیں……؟ ولی خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا! آپ نے سنا ہے کہ مَیں پاکستان توڑنا چاہتا ہوں۔ نہ جانے کب توڑوں گا، لیکن جنھوں نے توڑ کے رکھ دیا ہے، اُن کو آپ نے کیا سزا دی……؟ اگر ہم غدار ہیں، تو کوئی یہ ثابت کرے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے کب اور کتنی مرتبہ مسلح بغاوت کی……؟ ہم نے آزادی کی شمع روشن کی، تو غدار ٹھہرے اور جن لوگوں نے انگریز کی چاکری کی، وہ محب وطن اور جاگیردار بن گئے۔”
قارئین، رہرِ تحریک خان عبدالولی خان 1990ء کے عام انتخابات میں جب جمعیت علمائے اسلام کے مولانا حسن جان سے قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے، تو انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اُصولی فیصلہ کرلیا، جس پر میاں محمد نواز شریف، میر افضل خان اور رحمان اللہ خان نے آپ کو اپنی اپنی نشستوں سے الیکشن لڑنے کی پیش کش کی۔ آپ نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب مجھ پر اپنے حلقے کے عوام کا اعتماد باقی نہیں رہا، تو میں کسی اور حلقے سے کام یاب ہوکر کس منھ سے عوامی نمایندگی کا دعوا کروں گا……!
قارئین، یہ بااصول سیاست دان اور صاحب کردار عبدالولی خان اس قوم نما ہجوم جسے دنیا “پختون” کے نام سے جانتی ہے، کے آئینی حقوق کے لیے جد و جہد کرتے کرتے 26 جنوری 2006ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا رہبرِ تحریک کے درجات بلند فرمائے اور پختونوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے، آمین!
________________________________
قارئین، راقم کے اس تحریر کو روزنامہ آزادی سوات نے آج یعنی 26 جنوری 2024ء بروزِ جمعہ کو پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شایع کروایا ہے۔ ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔