قارئین، 1486ء میں پیدا ہونے والے شیر شاہ سوری کا اصل نام فرید خان تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم جون پور میں حاصل کی۔ 21 سال تک والد کی جاگیر کا انتظام چلانے کے بعد والی بِہار کی ملازمت اختیار کی۔ جس کے بعد جنوبی بِہار کے گورنر بنے۔ اسی طرح کچھ عرصے تک شہنشاہ بابر کی ملازمت کی۔ لیکن بعد میں مغل شہنشاہ ہمایون کو شکست دیتے ہوئے بنگال، بِہار اور قنوج پر اپنی حکم رانی قائم کی۔ حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہی اپنی مملکت میں بہت سی اصلاحات کیں۔ اپنے تعمیری کاموں کی وجہ سے ہندوستان کے “نپولین” کے نام سے مشہور ہوئے۔ سنار گاؤں سے لے کر دریائے سندھ تک ایک ہزار 500 کوس لمبی سڑک تعمیر کروائی، جو آج تک گرینڈ ٹرنک یعنی “جی ٹی” روڈ کے نام سے موجود ہے۔ مغل شہنشاہ اکبر ریاستی امور چلانے میں شیر شاہ سوری سے متاثر تھا۔ لیکن بد قسمتی سے یہ عظیم شخصیت 22 مئی 1545ء کو کالینجر کی مہم میں بارود خانہ کے اچانک پھٹ جانے سے وفات پاگئے۔
قارئین، تاریخ دان شیر شاہ سوری کو برِصغیر کی اسلامی تاریخ کا عظیم راہ نما، فاتح اور مصلح مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو ادب میں شیر شاہ سوری سے متعلق کئی مثالی قصے ملتے ہیں۔
شیر شاہ سوری 17 مئی 1540ء سے لے کر 22 مئی 1545ء تک حکم ران رہا۔ لیکن 5 سال اور 5 دن حکم ران رہنے والا ایسا فرماں روا تھا جس کی ستایش نامور مؤرخین اور عالمی مبصرین کرتے رہے ہیں۔ وہ ہندوستان کا وہ پہلا حکم ران تھا جس نے عوامی فلاح کی جانب اپنی بھر پور توجہ مبذول کرائی اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے جو تاریخ کے اوراق میں نہ صرف سنہرے حروف میں لکھے گئے بلکہ ان کے نقوش آج تک موجود ہیں۔ کیوں کہ ساڑھے پانچ سو سال قبل جس زرعی اصلاحات کا کام انہوں نے شروع کیا تھا، اس کی پیروی بعد کے تمام حکم رانوں نے کی۔ شیر شاہ نے گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جرنیلی سڑک تعمیر کرتے ہوئے اس کے کنارے سایہ دار اور پھل دار درخت لگائیں تھیں۔ سرائیں تعمیر کروائیں اور سب سے پہلا ڈاک کا نظام نافذ کیا تھا۔
اگرچہ فرید خان سور المعروف شیر شاہ سوری ایک معمولی جاگیر دار کا بیٹا تھا۔ ان کے والد حسن خان سور کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے اور وہ بابر کے معمولی جاگیردار تھے، لیکن دلیر، پُر جوش اور جواں مرد شیر شاہ نے مغل سلطنت کے بنیاد گزار بابر کے صاحب زادے ہمایوں کو ایک بار نہیں دو بار شکست دی۔ پہلی بار “چوسہ” کے میدان میں اور دوسری بار قنوج کے میدان میں۔ اُس کے بعد ہمایوں کو برسوں دربدری کی زندگی گزارنی پڑی اور اس دوران میں ہی اکبر کی پیدایش ہوئی تھی، جو بعد میں تاریخ کا اکبرِ اعظم بنا۔
اپنی جدوجہد سے شیر شاہ نے عظیم سلطنت قایم کی تھی۔ لیکن اس نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر سہسرام کو ہی پسند کیا تھا اس لیے اپنی زندگی میں ہی کیمور کی پہاڑی پر مقبرہ تعمیر کروایا تھا جس کے چاروں جانب جھیل پھیلی ہوئی ہے۔ قلعہ روہتاس جہلم شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ ہے۔ ہندوستان میں پختون سلطنت قایم کرنے کے آخری وقت میں شیر شاہ سوری اپنے چار خواہشات کا برملا اظہار کرتا۔
1- ہندوستان سے سعودی عرب کے لیے سمندری سفر شروع کرنا، تاکہ عازمین حج آرام سے مکہ مکرمہ حج کے لیے جا سکیں۔
2- ابراہیم لودھی سمیت بابر کا مقبرہ تعمیر کرنا۔
3- تمام پختونوں کو روہ (پختون خوا) سے بلا کر ہندوستان میں بسانا، تاکہ پختون قوم دوسرے قوموں کی طرح ترقی کر سکے۔
4- شہر لاہور کو ڈھانا، کیوں کہ لاہوری ہر ایک حملہ اور کے سامنے سرنڈر ہوتے ہیں۔
قارئین، مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی علاقے اور اپنی رعایا کے تقدیر بدلنے کی نیت ہو، تو محض پانچ سال اور 5 دن کی حکومت بھی کافی ہے۔
جاتے جاتے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا موصوف کو جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین۔
_______________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
شیئرکریں: