اس پدر شاہی نظام کا المیہ یہی ہے کہ یہاں ہر نظریے کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کو فیمین اِزم (Feminism) اور عورت مارچ “ننگا مارچ” ہی دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے ذہن میں اس کا مطلب فحاشی و عریانی اور ننگا پن ہی ہے۔ اصل میں ایسا سوچ رکھنے والوں کی سوچ شلواروں تک ہی محدود ہوتی ہے، تبھی ایسے فرامین دیتے ہیں۔ لوگوں کی ایسی ذہن سازی کرنے میں ریاستی پراپیگنڈا، مشینری اور بنیاد پرست طبقہ پیش پیش ہیں جو ہر ترقی پسند نظریے، مہم یا تحریک، جو ان کے حالات موجود (status quo) کے فایدے میں نہ ہو، کا مطلب و مقصد بگاڑتے ہوئے اس کے خلاف مذہبی اور حب الوطنی والا کارڈ استعمال کرتے ہیں اور اس نظریے، تحریک یا مہم کو بدنام اور ناکام بنا دیتے ہیں۔
ایسا ہم عورت مارچ اور “فمین ازم” کے ساتھ بھی کرتے آرہے ہیں کہ یہ دین اور سماج کے خلاف ہے۔ بھئی، کیسے خلاف ہے…؟ جب آپ عورتوں کو محکوم بنائیں گے، انہیں برابر کے حقوق نہیں دیں گے، بیٹی کی پیدایش پر خوشی نہیں منائیں گے، بیٹی اور بیٹے کے تعلیم اور نشوونما میں فرق کریں گے، اگر کہیں تعلیم حاصل کر بھی لے، تو انہیں تعلیم کے باوجود جاب کرنے نہیں دیں گے، انہیں اپنی کیریئر خود بنانے نہیں دیں گے، شادی اپنی مرضی اور خوشی سے نہیں ہونے دیں گے، تمام تر غیرت عورت کے جسم اور کپڑوں سے منسوب کرکے سارا بوجھ اس کے کردار پر ڈال دیں گے اور اگر کہیں عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے، تو غیرت کے نام پر قتل بھی اسی کو کریں گے۔ اگر ان تمام باتوں کو مدِ نظر رکھ کر کچھ ترقی پسند خواتین اپنی آئینی، قانونی اور شرعی حقوق مانگنے کےلیے سڑکوں پر نکل گئیں، تو کون سی گستاخی ہوگئی…؟
عورت اگر یکسا تعلیم اور یکسا پرورش پانے، کاروبار کرنے، اپنی مرضی سے شادی کرنے اور مردوں کی طرح اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے، تو کون سا جرم ہوگیا…؟ اگر عورت اپنی اوپر ہونے والے ظلم زیادتیوں اور ازدواجی عصمت دری یعنی (Marital Rape) کے خلاف اواز اٹھائے، تو کون سی فحاشی پھیلتی ہے…؟
عورت اگر اپنی جسم پر اپنی مرضی چاہ رہی ہے، تو یہ ان کا حق ہے۔ کیوں کہ عورت کے جسم پر مرد کی مرضی کیوں کر ہو…؟ مرد کو کیوں یہ حق حاصل ہو کہ عورت کو اپنا ماتحت اور محکوم بنائے اور اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال کرے…؟ کیوں مرد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی بیوی سے پوچھے بغیر اور شادیاں کرتا پھرے یا پہلی بیوی کو لڑکا نا پیدا کرنے پر طلاق دے…؟
کیا ان تمام باتوں کا اسلام میں اجازت ہے…؟ اگر نہیں، تو پھر ان کی تمام تر مطالبات ناجایز نہیں بلکہ انفرادی بنیادی حقوق ہیں جنہیں ہماری پدر سری معاشرے نے صلب کردیا ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مسئلے مسایل بھی ہیں، جہاں بنیاد پرست مردوں نے اپنی محکومیت اور انا کو قایم کرنے کےلیے عورتوں کو دبا کے رکھا ہوا ہیں۔ کیوں کہ ان کو ڈر ہیں کہ یہ حقوق اگر ان عورتوں کو دیے گئے، تو مردوں کی حاکمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ان کی انا مجروح ہو سکتی ہے۔ ایسی سوچنے والی معاشرے معاشی اور فکری طور پر مفلوج ہوتے ہیں کیوں کہ ایسے معاشروں میں روشن فکر لوگ پیدا نہیں ہو سکتے۔
قارئین، یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جب عورت کی فکری صلاحیتوں کو کھوکھلا کردیا گیا ہو اور اسے جہالت میں رکھا گیا ہو، تو وہ کیسے ایک بچے کی درست پرورش کر سکے گی…؟
قارئین، عورت مارچ اور فمین اِزم کو بدنام کرنے کےلیے ہم نے ڈھیر سارے مفروضے بنا رکھے ہیں۔ جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اعلا سماجی اقدار کے خلاف بیرونی سازش ہے۔ اگر سوچیں تو یہ کتنی مضحکہ خیز بات لگتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے اعلا اقدار جس میں اتنی تفریق اور ظلم ہو، انفرادی زندگی کی کوئی حیثیت نہ ہو، کے ساتھ ایسے کہانیاں جوڑنا کہا کا انصاف ہے…؟ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بیرونی قوتیں اتنی فارغ نہیں ہے کہ ایسے معاشرے کے خلاف سازشیں کرتے پھرے جو خود زوال کا شکار ہو۔
دوسرا حربہ ہمارے پاس مذہب ہوتا ہے، جو ہمیشہ یہاں ایک کار آمد نسخہ ثابت ہوا ہے۔ اگر کسی نظریے یا تحریک کو بد نام و ناکام کرنا چاہتے، ہو تو اسے کفر قرار دے دو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فحاشی پھیلانے کی مہم ہے اور غیر اسلامی ہے، تو کیا وہ جو ہم تفریق اور زیادتی کررہے ہیں، وہ عین اسلامی اور جایز ہے…؟
قارئین، عورت مارچ یا فیمین اِزم فحاشی پھیلانے اور دینِ اسلام کے خلاف سازش نہیں بلکہ اپنے بنیادی اور مساوی حقوق حاصل کرنے کےلیے ایک جد و جہد ہے۔ اسی لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ آج سے یہ عہد کریں کہ عورتوں کو ان کے یکساں حقوق دیے جائیں گے، تو شاید آیندہ سال عورت مارچ کی نوبت ہی نہ آئے۔
__________________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شائع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔