وطنِ عزیز پاکستان میں عام طور پر تاثر دیا جاتا ہے کہ گریڈ 17 سے اوپر سرکاری افسران کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں کم ہیں اور یہ افسران کم تنخواہوں پر ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کے ایک سرکاری تھِنک ٹینک یعنی پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے (UNDP) کے مشترکہ ایک تحقیق میں سرکاری افسران کی تنخواہوں اور مراعات بارے حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
ابدالی ڈاٹ کام کے پاس دستیاب پائیڈ کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں، تو وہ نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوامِ متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی تقریباً 12 فی صد زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اقوامِ متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب کچھ سیلری سلپ پر نہیں لکھا ہوتا بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ مالیت کی مراعات غیر محسوس طریقے سے سرکاری افسران تک پہنچتی ہیں۔ اسی طرح ورلڈ بینک کے "ورلڈ بیوروکریسی انڈیکیٹر” کے مطابق پاکستان میں سرکاری شعبے میں تنخواہیں پرائیویٹ شعبے سے 53 فی صد زیادہ ہیں۔
پاکستان کا ایک سرکاری افسر ماہانہ کتنے میں پڑتا ہے؟
پائیڈ کی تحقیق کے مطابق ایک گریڈ 20 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ 660 روپے ہے، مگر اصل میں اسے حاصل مراعات اور فائدے ماہانہ سات لاکھ 29 ہزار 511 روپے کے برابر ہیں۔
گریڈ 20 کے افسر کو دی گئی کار کے تمام اخراجات، گھر اور طبی سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے، تو وہ اس کی بنیادی تنخواہ سے بھی سات گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح سرکاری تحقیق کے مطابق گریڈ 21 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ ایک لاکھ 11ہزار 720 روپے ہے۔ تاہم ان کی کار، گھر اور طبی اخراجات کے ساتھ ان کو ملنے والے مالی فوائد ماہانہ تقریباً 10 لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ گویا ان کی اصل تنخواہ بنیادی تنخواہ سے گیارہ گنا زائد ہوتی ہے۔ اس طرح گریڈ 22 کے ایک سرکاری افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ صرف ایک لاکھ 23 ہزار 470 روپے ہوتی ہے، مگر اسے دراصل 11 لاکھ روپے کے مالی فوائد ہر ماہ دستیاب ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک وفاقی سیکرٹری کو ان کے ہم پلہ اقوامِ متحدہ کے افسر سے بھی زیادہ مالی فوائد ماہانہ ملتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ایک سیکرٹری لیول افسر کو تقریباً نو لاکھ 10 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔
پائیڈ نے اپنی تحقیق میں تجویز دی ہے کہ سرکاری افسران کی تنخواہ بھی ان کے ہم پلہ پرائیویٹ سیکٹر ملازمین کے برابر ہونی چاہیے اور ان کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ بھی ان کی کارکردگی سے مشروط ہونا چاہیے۔
سرکاری افسران کی مراعات کا قومی خزانے پر اثر
اس سرکاری تحقیق کے مطابق سرکاری ملازمین کے زیرِ استعمال رہائش گاہوں کی کل قیمت تقریباً ساڑھے 14 کھرب روپے کے برابر ہے۔ حکومت ان تمام سرکاری گھروں کو پرائیویٹ سیکٹر کو بیچ کر 14 کھرب سے زائد رقم حاصل کر سکتی ہے۔ ان تمام مکانات کو اگر حکومت کرائے پر دیں دے، تو اس سے سالانہ تقریباً 11 ارب روپے کرائے کی مد میں حکومت کو حاصل ہوں گے۔
اس طرح سرکاری افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کے اوپر ہونے والے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گریڈ 20 سے 22 تک کے افسران کی بنیادی تنخواہ سے زیادہ ماہانہ ان کی گاڑیوں کا خرچ ہوتا ہے۔ سرکاری افسران کو سیلری سلپ میں شامل ملنے والے میڈیکل الاؤنس کے علاوہ ہر ماہ انہیں مجموعی طور پر دو اعشاریہ تین ارب روپے میڈیکل اخراجات کے ضمن میں ادا کیے جاتے ہیں۔سرکاری افسران کی پنشنوں کے اثرات
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سرکاری افسران کی پینشن کا نظام بھی پرائیویٹ سیکٹر کے مقابلے میں خاصا فیاضی پر مبنی ہے۔ گو کہ سرکاری طور پر پینشن کی رقم سرکاری ملازم کی آخری بنیادی تنخواہ کا 70 فی صد ہوتی ہے لیکن اگر گزشتہ حکومتوں کی طرف سے پینشنز میں اضافوں کو شامل کیا جائے، تو یہ بنیادی تنخواہ کا 122 سے 140 فی صد تک بن جاتی ہے۔اوسطاً ایک سرکاری افسر جو 25 سال ملازمت کرتا ہے وہ 80 سال کی عمر میں پہنچنے تک پینشن وصول کرتا رہتا ہے اور ان کی موت پر ان کے تیرہ ورثا خاندانی پینشن کا دعویٰ کر سکتے ہیں جن میں ان کی اہلیہ، غیر منکوحہ بیٹی، کم عمر بچے، بیوہ بیٹی، مطلقہ بیٹی، معذور بچے اور دیگر شامل ہیں۔
حکومت کو تجاویز
اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں سرکاری تھنک ٹینک نے حکومت کو متعدد تجاویز بھی دی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت سالانہ تنخواہ میں اضافے کو کارکردگی سے منسلک کرے اور پہلے سے طے شدہ ایک معیار تشکیل دے جس کی بنیاد پر کارکردگی کو جانچا جائے۔
یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ مراعات کے بدلے نقد رقم دی جائے، تاہم تھینک ٹینک نے خبردار کیا ہے کہ اس کا طریق کار بہتر کیا جائے۔ کیوں کہ اس سے پہلے گاڑیوں کی مونیٹائزیشن ناکام رہی تھی۔ کیوں کہ اکثر افسران پیسے بھی لے لیتے تھے اور قواعد کی خلاف ورزی کر کے سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کرتے تھے۔
تحقیق میں حکومت کو اپنے رہائشی اثاثے نہ رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ پاکستان میں سول سروس اصلاحات کی تاریخ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی بیوروکریسی اپنے نوآبادیاتی تاریخ سے خاصی متاثر ہے۔ برطانوی راج نے اپنی حکومت کے لیے جو وسیع بیوروکریسی کا نظام تشکیل دیا تھا، اس نے نئی آزاد ریاست کے نظام کی فعالیت پر اثر ڈالا۔ تحقیق کے مطابق پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں سول سروس میں اصلاحات کے لیے 29 کمیشن بنائے جا چکے ہیں۔ تاہم کسی ایک کمیشن سے بھی زیادہ بہتری نہیں آ سکی۔ زیادہ تر اصلاحات نے تنظیمی ڈھانچے اور ادائیگی کے حجم میں تھوڑا بہت رد و بدل کیا مگر اصلاحات سے سرکاری شعبے کی کارکردگی میں بہتری نہ آسکی۔