ممتاز بلوچ قوم پرست سیاست دان اور فرسودہ نظام کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والی باہمت شخصیت میر غوث بخش بزنجو 19 دسمبر 1917ء کو بلوچستان کے علاقہ خضدار کے قریب نال میں سفر خان کے گھر پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے ایک سرکاری ہائی سکول سے حاصل کی۔ 1935ء میں کوئٹہ ہول ناک زلزلے کا شکار ہوا جس میں ہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے ۔ کوئٹہ کی بربادی کے باعث وہ کراچی چلے گئے جہاں اُنہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ لے لیا۔ پھر اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ یونی ورسٹی چلے گئے، جو اس وقت ہندوستان میں مسلم سیاست کا مرکز تھی۔ وہاں ترقی پسند افکار سے متاثر ہوئے۔ 1938ء میں علی گڑھ سے واپس آکر کراچی میں قایم بلوچ دانش وروں کی جماعت “بلوچ لیگ” میں شمولیت اختیار کرلی اور یہاں سے اُن کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں میر عبدالعزیز کرد کی قیادت میں تشکیل دی جانے والی سیاست جماعت “قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی” میں شمولیت اختیار کی اور اس کے مرکزی راہ نماؤں میں شمار ہونے لگے۔ قیامِ پاکستان سے آٹھ سال قبل قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے سالانہ اجلاس میں بلوچ لیگ کی نمایندگی کی۔ 1947ء کو ریاستِ قلات کی پارلیمان کے ایوانِ عام کے رُکن منتخب ہوئے۔
قارئین، بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے بعد خان آف قلات نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے غوث بخش بزنجو اور میر گل خان نصیر کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ دونوں نے یہ سوچ کر ان کی دعوت قبول کرلی کہ انھیں پاکستان کی سطح پر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کیوں کہ میر صاحب اعلا پائے کے سیاسی دانش ور تھے اور ان کے تجزیے کم ہی غلط ہوا کرتے تھے۔ تاہم مسلم لیگ میں شمولیت کے حوالے سے ان کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا۔ یہ ان کی سیاسی غلطیوں میں پہلی اور غالباً آخری غلطی تھی۔
1955ء میں جب تمام ریاستوں اور صوبوں کو مدغم کرکے ون یونٹ سکیم تشکیل دی گئی، تو بزنجو صاحب کو شدید مایوسی ہوئی۔ انہوں نے مسلم لیگ سے علاحدگی اختیار کرلی اور پرنس عبد الکریم اور سید گل خان نصیر کے ساتھ مل کر “استمان گل” نامی پارٹی بنائی۔ 1956ء میں ون یونٹ سکیم کے خلاف تحریک چلانے کے لیے سندھ، پنجاب اور صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر “پاکستان نیشنل پارٹی” کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کی یہ وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس میں ترقی پسند، قوم پرست، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور روشن خیال لوگ ایک ساتھ مل کر جد و جہد کر رہے تھے لیکن پھر سیاسی حالات نے کروٹ بدلی اور مولانا بھاشانی (بنگال) عوامی لیگ سے الگ ہوکر پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یوں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) وجود میں آگئی۔ اس انضمام کے بعد نیشنل عوامی پارٹی اس وقت پاکستان کی واحد پارٹی تھی جس میں ملک کے تقریباً تمام ترقی پسند، سیکولر، قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی راہ نما اور کارکن شامل تھے۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، ون یونٹ سکیم کے خاتمے، قومیتوں کے حقوق اور بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر آزادانہ انتخابات کے ذریعے دستور ساز اسمبلی کے قیام کے لیے نیشنل عوامی پارٹی نے بے مثال جد و جہد کی۔ ایوب خان کے زوال کے بعد 1970ء کے عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خوا) اور بلوچستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے آئین کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک آئینی کمیٹی بنائی گئی جس نے پارلیمنٹ میں 1973ء کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔ بزنجو صاحب نے اس آئینی کمیٹی میں نیشنل عوامی پارٹی کے نمایندے کے طور پر حصہ لیا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ 1973ء کے آئین کے بنیادی خالقوں میں شامل ہیں۔
1970ء کے عام انتخابات میں ولی خان نیپ صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی میں دوسری اور بلوچستان میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر کام یاب ہوئی۔ ان دونوں صوبوں میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومتیں قایم ہوئیں اور میر غوث بخش بزنجو کو بلوچستان کا گورنر نام زد کردیا گیا۔
نیپ پر سب سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے 1971ء کو پابندی عاید کی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1975ء کو اس پرپابندی لگوا دی۔ میر صاحب نے پوری کوشش کی کہ پاکستان کی ان دو سب سے بڑی ترقی پسند جماعتوں کے درمیان ٹکراو پیدا نہ ہو، لیکن وہ اس میں کام یاب نہ ہوسکے۔ بھٹو کی جانب سے جب نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی صوبائی حکومتوں کو برطرف کیا گیا، تو بزنجو صاحب نے گورنر کے عہدے سے استعفا دیا۔ انہیں گرفتار کرکے حیدر آباد سازش کیس میں ملوث کردیا گیا۔ رہائی کے بعد میر غوث بخش بزنجو نے “پاکستان نیشنل پارٹی” کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی۔
میر غوث بخش بزنجو نے قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کیں اور آخری وقت تک یہی کہتے رہے کہ عوام کے مظلوم و محکوم طبقات اور قومیتوں کو اس وقت تک حقوق نہیں ملیں گے جب تک ملک میں ایک حقیقی وفاقی جمہوری نظام قایم اور مستحکم نہیں ہوگا۔
میر صاحب نے زندگی کی آخری سانس تک ملک میں جمہوریت کے قیام اور وفاقی اکائیوں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری، قومیتوں، مزدوروں، کسانوں، عورتوں اور طلبہ کے حقوق کے لیے جد و جہد کی۔ ان کے مطابق اس مقصد کو پانے کے لیے تمام روشن خیال، ترقی اور جمہوریت پسند سیاسی گروہوں کو متحد ہونا پڑے گا۔
میر صاحب نے اپنی 72 سالہ زندگی میں 25 سال جیل میں گزارے۔ جولائی 1989ء کو ملک کے سیاسی حلقوں میں نہایت دکھ کے ساتھ یہ خبر سننے کو ملی کہ بزنجو صاحب عارضۂ سرطان میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ 11 اگست 1989ء کو بابائے جمہوریت اور 20ویں صدی عیسوی کی کئی لازوال تحریکوں کے “اسپارٹیکس” کینسر جیسی مہلک بیماری سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہارگئے۔
آپ اپنے گاؤں نال میں اپنی عظیم الشان لائبریری کے پیچھے، جہاں کبھی آپ اپنے باغ کے پھولوں کو پانی دیا کرتے تھے، میں دفن ہیں۔
جاتے جاتے ان کی وفات پر حبیب جالبؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
میرا ہم قفس بزنجو، میرا راہ نما بزنجو
کہاں اب سرِ زمانہ میری جان ایسا حق گو
___________________________________
محترم قارئین، راقم کے اس تحریر کو آج یعنی 26 اگست بروز جمعہ کو روزنامہ آزادی سوات نے پہلی بار شرفِ قبولیت بخش کر شائع کروایا ہے۔