په نخاس دی شی دا خوشی نصابونہ
د دروغو نه برجت دی کتابونہ
د جان خوخ دی د ژوند ٹول نزاکتونہ
کتابونہ، گلابونہ، ربابونہ
اس شعر کے خالق عطاء اللہ جانؔ ایڈوکیٹ ہیں جو پشتو زبان وادب کے ایک معروف نقاد، محقق، مترجم اور شاعر کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ایک تنقید نگار ہی کے طور پر ہوتی ہے۔
موصوف کی دراز قد، اکہرا بدن، سانولی رنگت، کان اور گال نہ دھنسے ہوئے اور نہ ہی ابھرے ہوئے، آنکھوں میں ذہانت آمیز شوخی، داڑھی چٹ، مناسب کالی مونچھ، مخروطی انگلیاں، آواز میں دھیما پن، پُرتاثیر لہجہ اور اوپر سے ان کی غضب ڈھاتی شخصیت ان کی سنجیدگی کا غماز ہے۔
آپ نے 28 مئی1977ء کو وادئ سوات کی پُرفضا مقام سیدو شریف میں ثمر خان (مرحوم) کے گھر جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول شگئی سے حاصل کرتے ہوئے 1993ء کو وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پھر 1995ء کو ایف ایس سی، 1998ء کو بی ایس سی اور 2001 ء کو ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ایم ایس سی تک تمام تعلیم آپ نے گورنمنٹ جہان زیب کالج مینگورہ سے حاصل کی۔ جب کہ 2005ء کو یونیورسٹی آف پشاور سے قانون کی ڈگری حاصل کی، اور آج کل ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے کیسوں کی پیروی کررہے ہیں۔ شاعر اور نقاد ہونے کی خاطر آپ نے یونیورسٹی آف سوات سے ایم اے پشتو کی ڈگری بھی حاصل کرلی ہے۔
آپ شعر و ادب اور تاریخ کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ پشتو، اردو اور انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں پر بھی اسے خوب دسترس حاصل ہے۔ اسی وجہ سے آپ نے حال ہی میں “گل گیڈئی” کے عنوان سے ایک شعری مجموعہ مرتب کی ہے جس میں انگریزی، اردو، عربی، فرانسیسی، بنگالی اور ترکی سمیت دیگر زبانوں کے اعلا پائے کے شعرا کی 61 نظموں کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ پشتو ادب میں پہلی کتاب ہوگی، جس میں اتنے ڈھیر سارے زبانوں کا ترجمہ یک مشت موجود ہے۔ اس کے علاوہ آپ کاظم خان شیداؔ کے سو مشکل اشعار کی تشریح بھی مکمل کرچکے ہیں، جو ابھی طبع کی مراحل میں ہے۔
آپ کے ان تمام خوبیوں کا خلاصہ سفید ریش ادیب اور شاعر روح الامین نایاب صاحب اپنے ایک تحریر میں کچھ یوں لکھتے ہیں: “وہ دبلا پتلا سا عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ کے نام سے یاد کیا جانے والا شخص، نہ جانے ان میں یہ گن کہاں سے آئی جو بہ یک وقت شاعر، ادیب اور تنقید نگار تو تھا ہی، اب بہترین ترجمہ نگار کا اعزاز بھی حاصل کر بیٹھا۔” جب کہ ان کی اصلاحی تنقید نگاری بارے کچھ یوں رقم طراز ہیں: “میں تو ان کو نقاد سمجھتا ہوں اور وہ بھی ہلاکو خان کی طرح، جو تنقید کرتے ہوئے کوئی خاطر اور لحاظ نہ رکھے، بلکہ مصنف اور شاعر کے فن پارے کے ایسے حصے بخرے کر دے کہ پھر اسے ڈھونڈنا اور اکٹھا کرنا مشکل ہوجائے۔ آپ نے تنقید کے سٹیج پر کھڑے ہوکر اچھوں اچھوں کی خبر لی ہے۔ انہیں ہیرو سے زیرو بنانے میں دیر نہیں لگاتا۔”
قارئین، اگرچہ ہمارے زیادہ تر لوگوں میں اصلاحی تنقید برداشت کرنے کا مادہ نہیں اور تنقید نگار کی ہر بات کو دل پر لیتے ہیں۔ لیکن تنقید کیسی بھی کیوں نہ ہو، شاعر موصوف کی شاعری کو سمجھنے میں مددگار ضرور ثابت ہوتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ادب اپنی ارتقائی منازل طے کریں تو پھر ہمیں تنقید برائے اصلاح کو سر بہ چشم قبول کرنا ہوگا۔
جانؔ صاحب شاعری کے مختلف اصناف یعنی غزل، نظم، ہائیکو اور قطعہ پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ آپ کے پاس دو تین مجموعے شائع کرنے کےلیے مواد تیارپڑے ہیں لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر فی الحال چھاپنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
آپ نہ صرف ایک اچھے شاعر، ادیب، نقاد اور مترجم ہیں بلکہ آپ کا شمار سوات کے خوش نویسوں میں بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اس دور جدید میں، جہاں ہر طرف کمپیوٹر کی لکھائی کا رواج ہے، مادری زبان کی خدمت قلم سے کی ہے۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے مختلف شعرا کے فن پاروں کو رونق بخشی ہے۔
اللہ تعالا موصوف کو علم و ادب کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرے۔ ان کی عمر دراز اور علم میں وسعت پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
جاتے جاتے موصوف کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
په رنگ او پہ رنڑا باندے مئين وومہ او يم
مطلب می دا خکلا باندے مئين وومہ او يم
واعظہ ستا مننہ چی جنت دی په ما سود شی
خو زۀ په دی دنيا باندی مئين وومہ او يم
د دی نه می د ذوق او د معيار اندازه لگی
په شعر د شيدا باندے مئين وومہ او يم
د جنگ او د وحشت توری بلا سره په جنگ يم
د امن سپين سبا باندی مئين وومہ او يم
“اے جانہ د وطن مينه پيدا دہ لہ ايمانہ”
په گل گل پختون خوا باندے مئين وومہ او يم
شیئرکریں: