تاریخ کی کتابیں بادشاہوں اور فاتحین کے ناموں سے بھری پڑی ہیں، لیکن انسانیت کا ضمیر ان کرداروں کو زندہ رکھتا ہے جو جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اصولوں کی قیمت قید و بند، صعوبتوں اور جان کے نذرانے سے ادا کرتے ہیں، لیکن اپنے نظریے پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ نیلسن منڈیلا سے لے کر مارٹن لوتھر کنگ تک، دنیا کی ہر قوم میں ایسے رہ نما پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی استقامت سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جب ہم پاکستان، اور بالخصوص سرزمینِ پختون خوا کی بات کرتے ہیں، تو یہ روشن استعارہ ہمیں ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست دان جناب بشیر خان عمرزئی کی شخصیت میں مجسم نظر آتا ہے۔
بشیر خان عمرزئی کا تعلق سیاست کی اس نرسری سے ہے جس کی آبیاری باچا خان کے فلسفہ عدمِ تشدد، ولی خان کی جمہوری بصیرت اور عوامی نیشنل پارٹی کے ترقی پسند نظریات سے ہوئی۔ اے این پی کی سیاست کبھی بھی اقتدار کی راہ داریوں کا طواف نہیں رہی بل کہ یہ ہمیشہ سے صوبائی خود مختاری، وسائل پر مقامی حقِ حاکمیت، اور ایک ایسے وفاق کے قیام کی جدوجہد کا نام رہی ہے جہاں تمام اکائیاں برابر ہوں۔ یہ وہ "جرم” ہے جس کی پاداش میں اس جماعت کے رہ نماؤں نے اپنی زندگیاں جیلوں کی تاریک کوٹھڑیوں یا جلا وطنی کے صحراؤں میں گزار دیں۔ بشیر خان عمرزئی اسی قافلے کے وہ سالار ہیں جنہوں نے ہر آمرانہ دور میں پابندِ سلاسل رہ کر یہ ثابت کیا کہ جسم کو قید کیا جا سکتا ہے، فکر کو نہیں۔
بشیر خان کی سیاسی زندگی محض ایک فرد کی کہانی نہیں، بل کہ یہ پاکستان میں جمہوریت کے سفر کی وہ داستان ہے جو قربانیوں سے لکھی گئی ہے۔ یہ اس نظریاتی صلابت کا قصہ ہے جو ہر اس وقت آزمائی گئی جب ملک پر آمریت کے سائے گہرے ہوئے یا جب مذہب کے نام پر انتہا پسندی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ بشیر خان عمرزئی اور ان جیسے دیگر رہ نماؤں نے ہمیشہ اس بیانیے کو چیلنج کیا جو مرکزیت، یکسانیت اور عدمِ برداشت پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کی بقا اس کے تنوع اور وفاقی روح کو تسلیم کرنے میں ہے۔
اس جدوجہد کا سب سے کٹھن اور لہو رنگ باب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رقم ہوا۔ جب انتہا پسند قوتیں پختون ثقافت اور شناخت کو مٹانے پر تلی ہوئی تھیں، جب خودکش دھماکوں نے بازاروں، جنازہ گاہوں اور تعلیمی اداروں کو خون میں نہلا دیا تھا، اُس وقت عوامی نیشنل پارٹی نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان کا مقابلہ کیا۔ بشیر خان عمرزئی اور ان کے بہادر فرزند، شکیل بشیر خان، اس جنگ میں محض سیاسی رہ نما نہیں بل کہ صفِ اول کے سپاہی تھے۔ ان پر ہونے والے متعدد دہشت گرد حملے صرف ان کی جان لینے کی کوشش نہیں تھے، بلکہ یہ اس اعتدال پسند اور روشن فکر آواز کو خاموش کرانے کی سازش تھی جو امن، تعلیم اور انسانیت کی بات کرتی تھی۔ شدید زخمی ہونے کے باوجود ان کا میدان میں ڈٹے رہنا اس بات کا عالمی اعلان تھا کہ گولی اور بم کی طاقت نظریے کو شکست نہیں دے سکتی۔ یہ صرف چارسدہ کی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں انتہا پسندی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں استقامت کی ایک لازوال مثال ہے۔

بشیر خان عمرزئی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز خدائی خدمت گار تحریک کے تسلسل یعنی عوامی نیشنل پارٹی کے فلیٹ فارم سے کیا تھا۔ آج بھی باچا خان کے چوتھی نسل سے اپنی سیاسی وفا داری نبھا رہے ہیں۔
فوٹو: ابدالؔی
آج جب ان کے فرزند، شکیل بشیر خان، چارسدہ میں پارٹی کی صدارت کا منصب سنبھالے ہوئے ہیں، تو یہ محض ایک سیاسی وراثت کا تسلسل نہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نظریے کا چراغ نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ یہ اس امید کی کرن ہے کہ باچا خان کی فکر آج بھی زندہ ہے اور نوجوان نسل اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چل کر اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے پُرعزم ہے۔ یہ تسلسل بشیر خان عمرزئی کی زندگی بھر کی کمائی اور ان کی خاموش رہ نمائی کا ثمر ہے۔
جناب بشیر خان عمرزئی کی زندگی اصولوں پر کاربند رہنے کا ایک عملی درس ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سیاست اگر خدمت اور نظریے سے جڑی ہو، تو وقتی مفادات، حکومتی دباؤ اور جان کا خوف بے معنی ہو جاتا ہے۔ وہ محض چارسدہ یا اے این پی کے رہ نما نہیں، بل کہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک زندہ باب ہیں۔ ایک ایسی روایت جو ہمیں سکھاتی ہے کہ حقیقی کام یابی عہدوں اور اختیارات میں نہیں، بلکہ اپنے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے اور اصولوں پر قائم رہنے میں ہے۔ آج بھی ان کا وجود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فکرِ باچا خانی کا چراغ نہ کبھی بجھا ہے اور نہ بجھے گا، بلکہ آنے والی نسلوں کو ظلمتوں میں روشنی دکھاتا رہے گا، انشاءاللہ
___________________________
ابدالى انتظامیہ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شایع کروانا چاہتے ہیں، تو اُسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ahabdali944@gmail.com پر اِی میل کر دیجئے۔ تحریر شایع کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔